مشرف کے غیر آئینی اقدام کیخلاف 3نومبر 07ء کا ہمارا فیصلہ ہی ملک کی تقدیر بدلے گا : جسٹس افتخار
اسلام آباد (خبرنگار/ ریڈیو نیوز/ ایجنسیاں) غیرفعال چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا گذشتہ روز ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی پہنچنے پر وکلاء نے والہانہ استقبال کیا۔ اسلام آباد ججز کالونی سے روانگی کے وقت ان کے ہمراہ اطہر من اللہ‘ اعتزاز احسن و دیگر وکلا‘ سول سوسائٹی کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پنجاب حکومت نے جسٹس افتخار کو بلٹ پروف گاڑی مہیا کرنے کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کا مکمل پروٹوکول بھی فراہم کیا۔ استقبال کرنیوالوں نے ججوں کی بحالی کے حق میں زبردست نعرے لگائے اور ڈھیروں پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ علاوہ ازیں جسٹس افتخار نے راولپنڈی بار میں راولپنڈی ڈویژن کی 18بارز کے نومنتخب عہدیداروں سے حلف لیا۔ بعدازاں خطاب کرتے ہوئے جسٹس افتخار نے کہاکہ عوام کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ آزاد عدلیہ کیلئے تحریک جاری رہیگی۔ مشرف کے غیرآئینی اقدام کیخلاف 3نومبر 07ء کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ (ہمارا) فیصلہ ہی ملک کی تقدیر بدلے گا‘ اگر آج ہم کسی مصلحت اور مفاد کا شکار ہو گئے تو پھر کوئی جج مارشل لاء کیخلاف حکم جاری نہیں کرے گا۔ ہمیں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں‘ ضمیر‘ آئین اور عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کرینگے۔ 9مارچ کے بعد ملک میں تبدیلی آئی ہے‘ دنیا بھر کے وکلا اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں‘ ہماری جدوجہد میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور آج پاکستان میں جتنی آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی‘ ماضی میں جب عدلیہ پر بُرا وقت آیا تو کسی نے ساتھ نہیں دیا پھر گلہ کیوں؟ ثنا نیوز کے مطابق جسٹس افتخار نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد میں کسی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے‘ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ عدلیہ ہمارے خلاف ہو سکتی ہے تو وہ غلط فیصلے نہ کریں۔ ریڈیو نیوز کے مطابق جسٹس افتخار نے کہاکہ ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خفیہ معاہدے نہیں کرنے چاہئیں‘ جب عدلیہ آزاد نہیں ہو گی تو ملک کا تحفظ نہیں ہو گا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر علی احمد کرد‘ اعتزاز احسن‘ حامد خان‘ جسٹس خواجہ شریف‘ پشاور ہائیکورٹ کے غیرفعال جسٹس اعجاز افضل و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جسٹس افتخار نے مزید کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آزاد عدلیہ 1973ء کے آئین کے تحت کام کرے‘ آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ 3نومبر 07ء کا اقدام غلط تھا۔ انہوں نے کہاکہ آزاد عدلیہ پورے ملک کی ضرورت ہے‘ عدلیہ نے پہلی مرتبہ آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا شروع کیا ہے‘ ایسے جج لانا ہونگے جو دبائو برداشت نہ کریں اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہم بہت بار آزمائے جا چکے ہیں‘ اللہ کا شکر ہے کہ کامیاب رہے لیکن 3نومبر سے قبل کی عدلیہ نے کبھی کسی آمر کا راستہ نہیں روکا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق جسٹس افتخار نے کہاکہ ماضی میں میرے جلسوں میں قانون کی حکمرانی کیلئے اظہار یکجہتی کرنیوالے آج کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی بحالی سیاسی مسئلہ بن گیا ہے حالانکہ دستور 73ء کے تحت میں آج بھی چیف جسٹس ہوں۔ علاوہ ازیں علی احمد کرد نے کہا کہ جب تک سانس چلے گی اسوقت تک جسٹس افتخار سمیت دیگر ججوں کی بحالی کیلئے دھرنا جاری رہے گا یہ دھرنا نہیں جینے مرنے کی بات ہے۔ 16مارچ کو جس کو چاہیں گے عدالتوں میں لاکر بٹھا دیں گے اگر کوئی روک سکتا ہے تو روک لے ہم جادوگر ہیں جو چاہیں گے کر دکھائیں گے۔ یہ عزت و وقار اور بقاء کی جنگ ہے‘ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہیں کہ عدلیہ کو دھرنے سے پہلے 2 نومبر والی پوزیشن پر بحال کر دیں کیونکہ یہ ہمارے مقروض ہیں وقت ہے پارلیمنٹ ججز کی بحالی کا فیصلہ کر لے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وکلاء 2 سال تک اس تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ راولپنڈی کے وکلاء اس تحریک کے اصل علمبردار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو مجھ پر مقدمہ بنانا ہے تو بنائو‘ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں لیکن اس پر بھی مقدمہ بنائو جو 12مئی کو مکے دکھاتا تھا۔ ثنا نیوز کے مطابق اعتزاز نے کہاکہ وکلا کے ملک بھر سے قافلے جب شاہراہ دستور پہنچیں گے تو دھرتی تڑپ رہی ہو گی۔ حامد خان نے کہاکہ جس مشرف کو آرٹیکل 6کے تحت سزا ہونی چاہئے تھی اسے گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے غیرفعال جسٹس خواجہ محمد شریف نے کہاکہ گزشتہ 60 سالوں میں سیاستدانوں‘ فوج اور اعلیٰ عدلیہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جس کی وجہ سے موجودہ حالات پیدا ہوئے۔ ہم ایسا انصاف چاہتے ہیں کہ اگر کسی عدالت میں زرداری کے مقابلے میں مداری کا کیس بھی آئے تو اسے بھی انصاف ملے۔ وزیراعظم جرأت کا مظاہرہ کریں اور عدلیہ بحال کریں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جسٹس افتخار کے ایک تاریخی انکار نے وکلا اور عوام کو نیا حوصلہ دیا ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنیوالی عدلیہ مکمل آزاد اور خودمختار ہو۔
جسٹس افتخار
جسٹس افتخار