پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!

کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء ! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایاجو شخص حصول علم کے لیے کوئی راستہ طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکے گا ۔ ابو نملہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس ایک یہودی بھی تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ لے جایا گیا تو یہودی نے کہا: اے محمد! کیا جنازہ بات کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: اللہ بہتر جانتا ہے یہودی نے کہا: جنازہ بات کرتا ہے(مگر دنیا کے لوگ نہیں سنتے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا:جو بات تم سے اہل کتاب بیان کریں نہ تو تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ یوں کہو: ہم ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر، اگر وہ بات جھوٹ ہوگی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی، اور اگر سچ ہوگی تو تم نے اس کی تکذیب نہیں کی۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے آپ کی خاطر یہودیوں کی تحریر سیکھ لی، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا:قسم اللہ کی میں اپنی خط و کتابت کے سلسلہ میں یہودیوں سے مامون نہیں ہوں تو میں اسے سیکھنے لگا، ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّمکو کچھ لکھوانا ہوتا تو میں ہی لکھتا اور جب کہیں سے کوئی مکتوب آتا تو اسے میں ہی پڑھتا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںمیں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کردیا تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے (ابوہریرہ ؓ نے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  کے خطبہ کا ذکر کیا، پھر کہا کہ ایک یمنی شخص کھڑا ہوا جسے ابو شاہ کہا جاتا تھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے (یہ خطبہ)لکھ دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے اور صحابہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے ایک طرح کی قربت و منزلت حاصل تھی لیکن میں نے آپ کو بیان فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلّم جب کلام کرتے تو اگر شمار کرنے والا اسے شمار کرنا چاہتا تو شمار کرلیتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم صاف صاف اور بالکل واضح انداز میں بات کرتے تھے)۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تم لوگ(علم دین) مجھ سے سنتے ہو اور لوگ تم سے سنیں گے اور پھر جن لوگوں نے تم سے سنا ہے لوگ ان سے سنیں گے۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا۔ سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا قسم اللہ کی، اگر تیری رہنمائی سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹ سے بہتر ہے۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایاجس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں غریب و خستہ حال مہاجرین کی جماعت میں جا بیٹھا، ان میں بعض بعض کی آڑ میں برہنگی کے سبب چھپتا تھا اور ایک قاری ہم میں قرآن پڑھ رہا تھا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم تشریف لائے اور ہمارے درمیان آ کر کھڑے ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کھڑے ہوگئے تو قاری خاموش ہوگیا، آپ نے ہمیں سلام کیا پھر فرمایا: تم لوگ کیا کر رہے تھے؟ ہم نے عرض کیا: ہمارے یہ قاری ہیں ہمیں قرآن پڑھ کر سنا رہے تھے اور ہم اللہ کی کتاب سن رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: سبھی تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ میں اپنے آپ کو ان کے ساتھ روکے رکھوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ہمارے درمیان میں آ کر بیٹھ گئے تاکہ اپنے آپ کو ہمارے برابر کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے حلقہ بنا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا، تو سبھی لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور ان سب کا رخ آپ کی طرف ہوگیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو میرے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے کسی کو نہیں پہچانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا: اے فقرائے مہاجرین کی جماعت! تمہارے لیے قیامت کے دن نور کامل کی بشارت ہے، تم لوگ جنت میں مالداروں سے آدھے دن پہلے داخل ہو گے، اور یہ پانچ سو برس ہو گا۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا:میرا ایسی قوم کے ساتھ بیٹھنا جو فجر سے لے کر طلوع شمس تک اللہ کا ذکر کرتی ہو میرے نزدیک اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ امر ہے، اور میرا ایسی قوم کے ساتھ بیٹھنا جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کے ذکرو اذکار میں منہمک رہتی ہو میرے نزدیک چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے، انہیں پھیلانے اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ تعاون کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن