اک طرفہ تماشا
صورت حال کچھ ایسی ہوتی جارہی ہے کہ ہر محکمہ نہ صرف زوال کا شکار ہے اور جس سرعت سے ہماری زرعی زمینوں کی جگہ رہائشی سوسائٹیوں نے لینی شروع کر دی ہے ایسے لگتا ہے کہ نہ صرف فضائی الودگی ،سموگ بڑھتی جائے گی ، بلکہ ہماری زرعی پیداوار کم ہوتے ہوتے ہم اپنی گندم اور روزمرہ کی اجناس زرعی ملک کہلانے کے باوجودباہر سے منگواتے نظر آئیں گے کیسی اعلیٰ پلاننگ ہے۔
یہ کیا طر فہ تماشہ ہے کہ اگر ملک میں ہر محکمہ اپنی مرضی سے کھلواڑ کر رہا ہے تو اس کو پوچھنے والے کسی اور ہی کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ عدلیہ پر عدلیہ کے ہی جج بیان بازی نہیں بلکہ توپیں چلا رہے ہیں۔ حال ہی گلگت کے سابق جج نے آڈیو کال جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی آواز میں کہی جا رہی ہے اس میں ان پر الزام ہے کہ وہ کہہ رہے ہیںکہ نواز شریف کو جیل سے باہر نہیں آنے نہیں دینا ، حتی کے انیس سو اٹھارہ کے الیکشن نہ گزر جائیں۔
جنرل شاہد عزیز نے مشرف پربغیر مشاورت اڈے دینے کا الزام لگایا، اسی طرح ، جسٹس صدیقی جو اسلام آباد کے جج رہے ہیں، ان کا حلفیہ بیان کے ایجنسیوں کے بندے جن کا وہ نام تک لے چکے ہیں ان پر دبائو ڈالتے رہے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو ضمانت پر رہا نہیں کرنا ۔ ایسے ہی کبھی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بھی اپنے ذاتی عزائم کے لئے سوو موٹو نوٹس لینے کے لئے مشہور ہیں۔ پھر اسی سپریم کورٹ پر نواز شریف کا حملہ کرانے سے کون واقف نہیں۔ اسی سپریم کورٹ کے جج نسیم حسن شاہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ذوالفقاربھٹو کو پھانسی دینے ہم پر دبائو تھا ، اس لئے کہ ہم مارشل لا کا مقابلہ نہیں کر سکتے کہ ہمیں بھی اپنی نوکریاں عزیز ہوتی ہیں۔ آئے دن ساہیوال کا واقعہ، ٹریفک پولیس والے کا دوران ڈیوٹی دن دہاڑے کسی وڈیرے کی گاڑی کے نیچے آ کر مرنا،تھانوں کچہریوں جیلوں میں روز مرہ کی عام آدمی کی خواری روزمرہ کا معمول ہے۔ اسی ملک عزیز میں آئے دن عزیز ہم وطنو کہتے ہوئے فوج امن وامان کو بہانہ بناکر حکومت پر قبضہ کرلیتی ہے اور یہی عوام ان کو چاہتے نہ چاہتے ویلکم کر رہے ہوتے ہیں۔ آج تو افریقی ملک سوڈان بھی، ترکی کی طرح مارشل لاء کو بھگا چکا ہے،برما میں فوجی جنتا کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ایتھوپیا میں فوج بارکوں میں جانے پر مجبور ہے جبکہ ملک عزیز میں ہم کسی بھی لمحہ فوجی بوٹوں کی چاپ سننے کو ذہنی طور پر تیا ہوتے ہیں،ہے نہ المیہ کہ ہماری کوئی کل تو سیدھی ہو اکڑتے ہیں ہم ایٹمی طاقت پر جس کو لانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو فوج نے ہی پھانسی دی گوادر کو پاکستان میں شامل کرنیوالے وزیراعظم فیروز خان نون کو ہم نے اقتدار سے نااہل قرار دیکر باہر نکال ڈالا اور ایوبی مارشل لا لگا دیا۔
جس لیاقت علی خان کو سازشی ٹولے نے قتل کرایا وہ مغرب کے سامنے بھٹو کی طرح پاکستان کی خود مختاری کے لئے قربان ہو گیا ورنہ اس سے کم از کم آئین ہمیں دئیے جانے کی توقع تھی ان کا قتل پاکستان کی تاریخ کا جمہوری رانگ ٹرنگ پوائنٹ ثابت ہوا اور ہم انیس سو اکہتر تک آئین نہ بنا سکے ،آج ہم نے اربوں ڈالرز کے قرضے لے کر ملک دیوالیہ کیا اور بقول وزیراعظم عمران قرضوں تو کجا ہم قرضوں کے اوپر سود بھی نہیں دے پا رہے۔ جبکہ ہر ایک نے کوئی میٹرو منصوبہ مصنوعی عوامی پذیرائی کے لئے قرض لے کر شروع کئے اور پھر اس پر کمیشنوں کک بیکس زبان زدعام ہوئیں حتی کہ آگسٹا آبدوز میں ایڈمرل منصورالحق ملوث پائے گئے ،اور تو اورمیڈیا میں بھی چند احباب کا کروڑوں میں کھیلنا میں کھیلنا ا،دویات کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں ، میڈیکل کمپنیوں کی سرعام مخصوص دوائوں کے لئے کمیشن دینا اور انتظامیہ کی کنسٹرکشن موٹر وے، شوگر مافیا اور دوسرے مافیاز ہسپتال غرض ہر ادارے میں کک بیکس کا ایک طرفہ تماشہ لگا ہوا ہے۔ اسمبلی اجلاسوں میں آئین کی تضحیک ہلڑ بازی، اپنے بل پاس کرانے اور ٹھیکے لینے ،ہر طرف قبضہ مافیہ، سفارش کا راج ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے نئے حکمران ثابت ہو رہے ہیں۔
سیاستدانوں کی اکثریت اپنے مالی مفادات میں سر گرداں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی اپنی ناک سے آگے کب دیکھے گی، ایک طرفہ تماشہ لگا ہوا ہے کس کس کا نام لوں پہلے دن سے آج تک رشوت اور سفارش ہی سب کچھ ہے دیکھیں اس سرکس تماشے کا کیا ڈراپ سین ہوتا ہے،بہت دیر پہلے بہادر خان نے متحدہ اسمبلی میں کہا تھا ،،ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ، انجام گلستان کیا ہو گا۔عوام تو ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں، پہلے بھی بجھتے رہے ہیں اور اب بھی جل کر بھسم ہونے کو تیار ہیں۔ کسی کو کیا خبر کہ نالوں کا جواب کب آئے، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ الغرض۔ توبہ میری جام شکن جام میرا توبہ شکن سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ہمارا آئین،ہمارا قومی منشور،جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔