بابا لعل شاہ قلندر ؒ

بابا سید لعل شاہ قلندر بیابانی کا مزار سوراسی سیداں، گلہڑا گلی مری میں مرجع خلائق ہے۔ پاکستان کے دو صدر آپ کی زندگی میں آپ کے حضور حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک ایوب خان اور دوسرے ضیاء الحق۔ آپ جب بقید حیات تھے تو مری کی سیر کے لیے آنے والے اکثر لوگ آپ کی زیارت کیا کرتے تھے۔ لوگ آپ کو لعل شاہ بادشاہ کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوا کرتی تھی۔ اس کی مار سے امیر غریب کوئی نہ بچ پاتا۔ لوگ بابا جی سے مار کھانا فخر سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جس کو بابا جی کی چھڑی چھو بھی جاتی، اس کا کام ہو جاتا تھا۔ بابا جی کے والد کا نام سید مردان شاہ ہے۔ آپ امام موسیٰ کاظمؓ کی نسل سے تھے۔ لہذٰا کاظمی سید کہلاتے تھے۔ آ پ کے آباء واجداد عباسی خلیفہ متوکل عباسی کے دور میں عراق سے ہندوستان آئے۔ یہ خاندان اولاََ مختلف مقامات پر آباد ہوا پھر بنوں سے آگے کرم پارا چنار میں آ بسا۔ دو پشتوں کے بعد نور پور شاہاں میں ڈیرے ڈالے۔ غالباََ یہ اورنگ زیب عالمگیر کا زمانہ تھا۔ نورپور شاہاں میں ان لوگوںکا قیام انگریز کی عملداری تک رہا۔ اس دور کے خاندانی سربراہ عیسیٰ سلطان کاظمی نے وفات پائی تو یہ خاندان سن پور سیداں میں آ گیا۔ خاندان کے اگلے سربراہ سید کریم حیدر شاہ موضع سوراسی میں تشریف لے آئے۔ اس وقت سے یہ خاندان یہی آباد ہے۔ سید کریم حیدر شاہ، بابا لعل شاہ کے دادا تھے۔ بابا لعل شاہ کے والد سید مردان شاہ کی وفات کے وقت بابا جی پندرہ برس کے تھے۔ ابتدا ہی سے آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور اپنے گاؤں سوراسی میں امام مسجد تھے۔ آپ نے اپنے گھر میں درس گاہ بھی قائم کر رکھی تھی اور بچوں کو قرآن حکیم کا درس دیا کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ پر 43 سال کی عمر میں جذب طاری ہوا تو تمام علائق دنیا رفتہ رفتہ آپ سے منقطع ہونے لگے۔ لہذٰا آپ نے اپنے علاقے کے جنوب میں منگل نامی جنگل میں چلہ شروع کیا۔ یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ آپ دو سال تک بے آب ونان و نفقہ ایک درخت کے نیچے یادخدا میں مصروف رہے۔ قریب کوئی بستی نہ تھی البتہ اس مقام سے کچھ فاصلے پر قوم دھنیال کاایک گاؤں تھا۔ یہ لوگ اکثر بابا جی کی زیارت کے لیے آیا کرتے اور کچھ کھانے پینے کو ساتھ لے آتے۔ دوسال بعد آپ یہاں سے مشرق کی جانب گلہڑا گلی کے گنجان جنگل میں آ بیٹھے۔ یہاں چیڑ کے فلک بوس درخت تھے جن کے درمیان ایک دس گز کا ہموار دائرہ سا تھا۔ آپ نے یہاں جھونپڑا بنوایا نہ کسی درخت کا سایہ ہی قبول کیا بلکہ کھلے آسمان تلے اس دس گز کے ٹکڑے میں بائیس سال کا طویل چلہ کیا۔ آخری عمر میں آپ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے۔ آپ کے جسم کی ایک ایک ہڈی گنی جا سکتی تھی۔ آپ سردی گرمی کے اثرات سے بے اثر ہو چکے تھے۔ موسم کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے تیس چالیس درجے کم ہو جاتا۔ برفوں کے ڈھیر آپ پر لگ جاتے مگر آپ کو کچھ خبر نہ ہوتی۔ لوگ آپ کو برف سے نکالتے تو خوش ہو جاتے۔ صرف ایک لنگوٹ آپ کے بدن پر ہوتا۔ 22 سال بعد 11 دسمبر 1959ء میں بابا صاحب کا یہ چلہ ختم ہوا تو آپ اپنی زمینوں پر آ گئے۔ آپ نے 1967ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار اسی اپنی ملکیتی زمین پر سوراسی سیداں میں واقع ہے۔ ہر سال 11 جون کو آپ کا عرس ہوتا ہے۔ آپ کی بے شمار کرامتیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ میرے ا یک دوست نے مجھے بتایا کہ میں ایک بار بابا لعل شاہ قلندر کے مزار پر حاضری دینے گیا تو ایک خان صاحب مزار سے کچھ دور راستے میں خیمہ لگائے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: چائے یا قہوہ پی کر سلام کو جائیں۔ میں اپنے ساتھیوں سمیت خیمے میں بیٹھ گیا۔ خان صاحب کا ساتھی قہوہ بنانے لگا۔ میں نے خان صاحب سے پوچھا کہ یہاں خیمہ لگائے کیوں بیٹھے ہو۔ کہنے لگا۔ پچیس سال پہلے بہت مشکل میں تھا۔ راولپنڈی آیا کہ کوئی کام دھندا مل جائے۔ نہ ملا۔ گرمیوں کا موسم تھا، مری آ گیا۔ یہاں بھی حال مندا رہا۔ کچھ لوگوںکو بابا لعل شاہ قلندر کے بارے میں بات چیت کرتے سنا۔ بے اختیار چل پڑا۔ راہ کا پتا نہ مسافت کا۔ پہاڑوں پر چڑھتے اترتے گیارہ بارہ میل کی مسافت طے کر گیا۔ اچانک بابا کو اپنے چاہنے والوں میں بیٹھے دیکھا۔ سلام کیا۔ کہنے لگے، خان بابے! آ گیا پشاور سے؟ بڑا بھوکا لگتا ہے۔ عرض کیا۔ بھوکا نہ ہوتا تو آپ کے پاس کیا لینے آتا۔ آپ نے مجھے لنگر خانے میں لنگر کھانے کے لیے بھیج دیا اور کہا، رات بھر وہیں رہنا۔ صبح ہوئی تو میں پھر حاضر ہوا۔ مجھ سے ایک روپیہ نیاز لے کر کہا جا پیچھے ہٹ کر نہ دیکھنا۔ میں واپس پشاور چلا گیا۔ رزق کے دروازے کھل گئے۔ پچیس سال بعد بابا لعل شاہ خواب میں آئے تو کہا۔ ’’او خان بابے! ہم نے تم پر مہربانی کی تھی، تُو دوبارہ ہماری طرف نہیں آیا‘‘ میں نے عرض کیا، آپ کا حکم تھا۔ جواب سن کر کہا۔ چل حاضری کے لیے ہمارے پاس آ۔ ڈیڑھ ماہ سے خیمہ ڈالے بیٹھا ہوں، میری گاڑیاں روز پشاور سے آتی ہیں، مجھ سے ہدایت لے کر واپس چلی جاتی ہیں۔ اجازت ہو گی تو پشاور جاؤں گا ورنہ ساری عمر یہیں گزار دوں گا۔