نج کاری کا خمار کیوں؟
پاکستان میں تقریباً ہر پرائیویٹ ادارہ منافع پر جا رہا ہے لیکن ہر سرکاری ادارہ، محکمہ، کمرشل اور صنعتی ادارہ مسلسل خسارے میں ہے،حکومت کے کسی پالیسی ساز ادارے،انتظامی اور مالیاتی امور کے ماہرین نے سرکاری شعبے کے اداروں کے خسارے میں جانے کی بنیادی وجوہات تلاش کرنے اور اسے منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے شعوری طور پر کچھ بھی نہیں کیا بلکہ ایسے اداروں کو ہمیشہ ’’نجکاری کی بھٹی‘‘ میں جھونکنے کی سفارش کی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں سینکڑوں ادارے ’’نجکاری کی لائن‘‘ میں لگے ہوئے ہیں جس سے ان اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کا مستقبل اور روزی روٹی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ یہاں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے خسارے میں جانے والے اداروں میں انتظامی، مالیاتی اور منصوبہ بندی کی کمزوریوں اور خامیوں کی اصلاح کرنے کی طرف قطعاً توجہ ہی نہیں دی بلکہ انہیں ’’اونے پونے داموں‘‘ فروخت کرنے کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ حکومت کے ’’نجکاری کے خمار‘‘ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم اب تک کئی اہم اداروں سے ’’ہاتھ دھو چکے ہیں‘‘ اور اِن سے حاصل ہونے والی دولت ’’کھوہ کھاتے‘‘ جا چکی ہے ابھی گزشتہ دنوں پاور سپلائی کمپنیوں کی نجکاری کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں اور ان کے ملازمین نے اپنے ’’مستقبل کے تاریک ہونے‘‘ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نجکاری سے پہلے ہر حکومت ادارے کے ملازمین کو ’’لابی پاپ‘‘ دیتی ہے۔ انہیں ’’سبز باغ‘‘ دکھاتی ہے کہ نجکاری کے بعد ان کی ملازمت اور مالی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن نجکاری کا عمل مکمل ہوتے ہی ادارے کے نئے مالکان یعنی سیٹھ صاحبان اور حکومت دونوں ہی اِن ملازمین سے ’’نظریں پھیر‘‘ لیتے ہیں اور یہ بے چارے اپنے جائز حق کیلئے ’’دربدر کی ٹھوکریں‘‘ کھاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ آپ قومی بینکوں کی نجکاری کی مثال سامنے رکھیں تو آپ کو ان مالیاتی اداروں کے ہزاروں ملازمین اور پنشنرز ’’رُلتے‘‘ نظر آئیں گے۔ ان اداروں کے سیٹھ صاحبان نے انہیں کیسے کیسے سہانے خواب دکھائے تھے جو اب مکمل طور پر ’’چکنا چور‘‘ ہو چکے ہیں اور یہ بیچارے اپنے جائز حق کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک میں خسارے پر چلنے والے سرکاری اداروں کو ’’اس حال تک پہنچانے والوں‘‘ کے خلاف ’’رتی بھر‘‘ بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔ یاد رہے کہ اس وقت ملک میں ’’نجکاری کی لائن‘‘ میں لگے اداروں میں قومی اور دفاعی اہمیت کے کئی ادارے شامل ہیں ان میں پاکستان سٹیل ملز، جہاز رانی سے متعلقہ ادارے، پاور سپلائی کمپنیاں، او جی ڈی سی، پی پی ایل، نیشنل بنک ، سٹیٹ لائف ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ حکومت کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نجکاری کا پروگرام آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ’’حکمنامے‘‘ کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت پی آئی اے، پاکستان ریلویز، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ، توانائی کی تقسیم کار کمپنیوں اور دیگر اہم اداروں کے خسارے پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اسی لیے حکومت نے اس ’’گھمبیر مسئلے‘‘ کا انتہائی آسان حل ’’نجکاری‘‘ یعنی ان خسارے والے اداروں سے ’’جان چھڑانا‘‘ ڈھونڈا ہے۔ ہماری وفاقی وزارت نجکاری توانائی کے اہم شعبوں تیل، گیس اور بجلی کے ساتھ ’’ترجیحی سلوک‘‘ کر کے انہیں ’’نجکاری کی بھٹی‘‘ میں جلد جھونکنے کے چکروں میں ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپ مگر حیران کن ہے کہ حکومت نے اپنے خسارے میں جانے والے کئی اداروں کو ’’نجکاری کے چکروں‘‘ میں ڈالنے کی بجائے انہیں خودمختار کمپنیوں میں ڈھال دیا مثلاً پوسٹل لائف انشورنس کمپنی ، ہائوس بلڈنگ فنانس کمپنی اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں جہاں ’’بھاری معاوضوں پر بھاری بھرکم‘‘ افراد کو بھرتی کیا گیا ہے یہ بات اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ایسی تقرریوں کو ’’سیاسی بھرتیاں‘‘ سمجھتے ہیں یا موجودہ حکومت کا پسندیدہ نعرہ ’’تبدیلی آ چکی ہے‘‘۔ دوسری طرف وزارت خزانہ کا سنٹرل مانیٹرنگ یونٹ اور کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے سرکاری ادارہ جات خسارے پر جانے والے اداروں کا مسلسل جائزہ لیتا رہتا ہے اور خسارے میں اوپر جاتے گراف کو نہایت صبر و سکون سے برداشت کرتا ہے حالانکہ خسارے پر جانے والے سرکاری اداروں کا گراف مالی سال 2013-14ء کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران دوگنا سے بھی بڑھ چکا ہے اور حکومت کی تمام تر منصوبہ بندی ، حکمت عملی اور کوششوں کے باوجود ’’خسارے کا بے قابو جن‘‘ قابو میں نہیں آ رہا اسی لیے ان سے جان چھڑوانے کے لیے انہیں ’’نجکاری کا جام‘‘ پلایا جا رہا ہے۔ اب عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان قومی اداروں کو مالی طور پر تباہ کرنے والے افراد کا ’’کڑا احتساب‘‘ کون کرے گا؟ ملک میں پرائیویٹ شعبہ جو بھی ادارہ قائم کرے وہ منافع میں جاتا ہے اور حکومت کا ہر ادارہ گھاٹے میں ’’آخر کیوں‘‘؟ ریل گاڑیاں حکومت چلائے تو ہر قدم پر خسارہ اگر یہی گاڑی کوئی سیٹھ یا ان کا گروپ ٹھیکے پر لے لے تو ان کی ’’تجوریاں‘‘ بھرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بجلی حکومت پیدا کرے تو ’’گھاٹا ہی گھاٹا‘‘ لیکن اگر نجی کمپنیاں (آئی پی پی) بجلی پیدا کریں تو دولت ان کے ’’قدم چومتی‘‘ ہے۔ پی آئی اے کے طیارے آسمان پر پرواز کریں تو خسارہ نجی ائیر لائنز ان کے مقابلے میں بھاری منافع کمانے کے ریکارڈ قائم کر لے۔ کیا ہر شعبے میں خسارہ حکومت کے ہی ’’مقدر‘‘ میں لکھا جا چکا ہے؟ حکومت کے ’’عالی دماغ‘‘ کیا کبھی اس نقطے پر غور کرنے کی زحمت کرینگے؟ کیا سخت شرائط پر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنے کو اپنی کامیاب معاشی حکمت عملی قرار دینے والے کبھی خسارے پر قابو پانے کا ’’نادر نسخہ‘‘ بھی پیش کریں گے؟ کیا توانائی، سٹیل ، جہازرانی، ہائوسنگ و فنانس، این ایف سی، نیسپاک، بنک اور دیگر اہم قومی اداروں کی نجکاری ملک مفاد میں ہے؟ کیا ان اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کی ’’متوقع بیروزگاری‘‘ کے ہم موجودہ دور میں متحمل ہو سکتے ہیں؟