70بدھ ‘ 3جمادی الاول 1443ھ،8دسمبر2021ء

فیصد علاقوںمیں بجلی نہیں ووٹنگ مشین پر الیکشن ناممکن ہے۔ بلوچستان کابینہ
ایک بات پر اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ بلوچستان اسمبلی کے بارے میں ابھی تک یہی تاثر تھا کہ وہاں سب من موجی بے فکرے نواب ، سردار اور خان صاحبان تشریف رکھتے ہیں۔ انہیں باہمی دست و گریباں ہونے یا پھر مراعات کے حوالے سے اتفاق رائے حاصل کرنے سے زیادہ کوئی اور اہم مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج بلوچستان کی وہ حالت نہ ہوتی جو ہے۔ کھربوں روپے ہر سال ملنے کے بعد تو اتنے ترقیاتی کام ہوتے کہ پورا صوبہ ماڈل بن چکا ہوتا۔ مگر ایسا کچھ بھی کہیں نظرنہیں آتا۔ اس پر تو وہی کشمیری زبان کی ایک مثال یاد آتی ہے۔ میں خود ہی چاقو ہوں اور خود ہی گوشت ،، یعنی میں خود ہی اپنے وجود کو کاٹ رہا ہوں۔ عقل مند ایسا ہرگز نہیں کرتے۔ دودھ دینے والے جانور کو نہلایا ، ٹہلایا اور کھلایا پلایا بھی جاتا ہے تاکہ وافر دودھ مہیا ہو۔ خیر اب بلوچستان اسمبلی نے جس طرح ایک حقیقت بیان کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور ان کی کابینہ نے درست فرمایا ہے کہ ہمارے 70 فی صد علاقوں میں بجلی ہی نہیں، وہاں مشینوں پرووٹنگ کیسے ہو گی۔ بات درست بھی ہے یہ الیکٹرانک مشین بجلی سے ہی چلتی ہے۔ صوبہ بلوچستان کیا سندھ اور باقی صوبوں میں بھی 70 نہ سہی 40 فیصد سے زیادہ دیہی علاقوں کی یہی صورت حال ہے۔ بجلی اگر ہے بھی تو طویل لوڈشیڈنگ کی بدولت وہاں اندھیرا ہی چھایا رہتا ہے وہاں یہ مشینیں کس طرح کام کریں گی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت پہلے ملک بھر میں بجلی کی مسلسل فراہمی بہتر بنائے پھر یہ مشینی ووٹنگ شروع کرے ورنہ بجلی کے انتظار میں پولنگ کا وقت ختم ہو جائے گا اور ووٹر انتظار میں سوکھ رہے ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
ماڈل ٹائون کچہری سے 13 خطرناک ملزم بخشی خانے کا دروازہ توڑ کر فرار ہوگئے
یہاں جب قیدی دروازہ توڑ کر پولیس والوں پر ٹوٹی پھوٹی اشیاء اور پتھر برسا رہے تھے تو ماڈل ٹائون کچہری میں موجود پولیس والے شاید اسے فلمی سین کی شوٹنگ سمجھ کر کھڑے تماشا دیکھتے رہے ہونگے۔ ورنہ دن دہاڑے اس طرح اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کا فرار صرف فلمی سین میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں ایسا کرنا قیدیوں کیلئے ممکن نہیں۔ جب پتہ ہو کہ باہر دن کے وقت سینکڑوں لوگ اور پولیس کی بھاری نفری کچہری میں موجود ہے‘ اس طرح کی واردات ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی۔ قیدی جیل توڑتے ہیں تو وہ بھی رات کے وقت فرار کی راہ لیتے ہیں۔ مگر یہ عجب دلیر قیدی تھے کہ آسانی سے پتھر برسا کر نہتے ہاتھوں پولیس کی بھاری مسلح نفری کے سامنے سے دوڑ لگا کر بھاگ گئے اور پولیس والے مٹی کے مادھو بن کر صرف تکتے رہ گئے۔ کسی نے ان بھاگتے چوروں کا پیچھا کرکے ان میں سے کسی کی لنگوٹی ہی پکڑنے کی کوشش نہیں کی ورنہ وہی ہاتھ آسکتی تھی۔ یہ فرار تو اور بھی دوسرے دلیر نڈر قیدیوں کو پر تولنے پر تیار کر سکتا ہے۔ ان کے دلوں میں بھی آزادی کی اڑان بھرنے کی تمنا بیدار ہو سکتی ہے۔ اگر ان کو لانے لے جانے کیلئے بھی ایسے ہی مٹی کے مادھو پولیس کی وردی پہنا کر رکھے گئے تو خطرہ ہے کہیں وہ ان سب کو جیل کی گاڑی سمیت لیکر بھاگنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ بعدازاں پولیس کو تاوان دیکر اپنے کاکے سپاہیوں کو چھڑوانا پڑے۔ حد ہوتی ہے لاپروائی کی بھی اور بزدلی کی بھی۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر یہ ملی بھگت سے ہی قیدیوں کو فرار کرایا گیا ہوگا۔
٭٭٭٭
جنید صفدر کی شادی کی تقریب میں حمزہ اور مریم نواز نے گانا گایا
بڑے عرصے بعد شریف خاندان میں خوشی کی ایسی تقریب ہو رہی ہے جس میں سارا خاندان سوائے میاں نوازشریف کے موجودہے۔ میاں جی کے نواسے مریم نواز کے صاحبزادے جنیدصفدر کی شادی کی تقریب میں اس وقت شرکائے محفل نے خوب داد دی جب میاں حمزہ شہباز اور مریم نواز نے یعنی دولہا کے ماموںاور والدہ نے اپنی گلوکاری سے محفل کو گرما دیا۔ حمزہ شہباز اس سے قبل بھی گانا گا چکے ہیں مگر مریم نواز کی طرف سے گلوکاری نے تو سب کو حیران کر دیا۔ حمزہ کے گانے کے بول سے ان کی جنید سے محبت کا والہانہ اظہار آیا سامنے۔ انہوں نے
’’ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنائ…‘‘
گایا تو خوب رنگ جمایا۔ اسی طرح مریم نے
’’جب کوئی بات بگڑ جائے ‘
جب کوئی مشکل پڑ جائے
تم دینا ساتھ میرا او ہمنوا…‘‘
گایا تو ان کی ممتا کی جھلک ان کی آواز اور ان کی آنکھوں کی چمک میں بخوبی نظر آرہی تھی۔ اب بہت سے لوگوں کو پتہ چلا ہوگا کہ شریف خاندان میں ہر طرح کے رستم چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں نمازی بھی ہیں‘ قاری بھی ہیں‘ نعت خواں بھی ہیں۔ اب پتہ چلا کہ وہ میدان گلوکاری میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بندہ ویسے ہی خوش نظر ہو‘ خوش رنگ ہو تو خوش گلو ہونا ویسے بھی ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ بہرحال جنیدصفدر کو شادی کے موقع پر اپنوں کی اتنی چاہت مبارک ہو۔
٭٭٭٭
کامیاب جوان پروگرام کی تقریب میں مکھی وزیر اعظم کو تنگ کرتی رہی
گرچہ جان بوجھ کرتو مکھی نے ایسا نہیں ہو گا۔ مگر وزیر اعظم جو صاف ستھرے اُجلے ماحول میں رہنے کے عادی ہیں وہ مکھی کی اس حرکت پر خاصے برہم بھی نظر آئے مگر افسوس مکھی وزیر اعظم کے مرتبے سے واقف نہیں تھی۔ اس لیے شرارتیں کرتی رہی اوروزیر اعظم زچ ہو کر اسے اڑاتے رہے ، مگر وہ نہیں مانی۔ ایک عباسی خلیفہ کو بھرے دربار میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مکھی بار بار اس کے ناک پر بیٹھتی اڑانے کی ہر کوشش ناکام گئی تو اس نے اپنے درباری مسخرے سے پوچھا کہ خدا نے یہ مکھی کیوں پیدا کی ہے وہ درباری بھانڈ خلیفہ کی ساری کارروائی دیکھ چکا تھا مگر جی دار تھا فی البدیہہ کہنے لگا، جان کی امان پائوں تو عرض کروں مکھی کو خدا نے بڑے بڑے جابروں کا غرور توڑنے کے لیے بنایا ہے۔ اب ہم ایسا کچھ تو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے یہ کوئی پی ٹی آئی کا کارکن ہو جو مکھی کے بھیس میں وزیر اعظم کا بار بار دیدار کر رہا ہو۔ یا یہ مکھی پی ٹی آئی کی دیوانی ہو اور اپنے قائد کے صدقے واری جا رہی ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو وزیر اعظم کو زچ کرنے والی یہ مکھی قابل معافی نہیں۔ اسے اول تو بہتر یہی تھا کہ موقع واردات میں سزائے موت دی جاتی ‘ زہریلا سپرے کر کے مار دیا جاتا۔ مگر افسوس ایسا ہو نہ سکا اور یہ تقریب میںبدمزگی پھیلا کر فرار ہو گئی۔ اب شاید خفیہ والے اسے تلاش کر رہے ہوں۔
٭٭٭٭