تین ماہ بعد پٹرول سستا ہونے کی ’’خوشخبری‘‘
مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے اہل پاکستان کو یہ ’’خوشخبری‘‘ سنائی ہے کہ تین چار ماہ میں پٹرول کے نرخ کم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کم ہو جائے گی۔ وہ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ معلوم نہیں ان کا یہ بیان سیاسی ہے (کہ وہ سینیٹر بننے کے امیدوار ہیں) یا ماہر اقتصادیات کے طورپر ان کا تجزیہ۔ کیونکہ عملاً ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہو اور اس کا فائدہ اہل پاکستان کو بھی پہنچا ہو۔ یہاں جب عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہوتا ہے اس کا فوری اثر پاکستان میں پڑتا ہے۔ اور یہاں اسی تناسب سے (اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ تناسب سے) تیل کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ کم ہونے کے باوجود پاکستان میں تیل کے نرخ میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ البتہ جب کبھی حکومت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتی بھی ہے تو وہ محض چند پیسوں میں ہوتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کیلئے تیل قومی آمدنی میں اضافے کا بڑا ذریعہ ہے اور وہ اس میں کسی ’’خسارے‘‘ کا رسک نہیں لے سکتی۔ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے یا کمی کو پٹرول کے نرخوں سے ماپا جاتا ہے۔ جب بھی پٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں‘ اسی وقت اشیائے ضروریہ کے نرخوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں جس کا تمام بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے۔ اب مشیرخزانہ نے یہ خبر دی ہے کہ آئندہ تین چار ماہ میں پٹرول کے نرخ کم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی بھی کم ہو جائے گی‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان تین چار ماہ کے دوران مہنگائی اور کس قدر بڑھ چکی ہوگی۔ آج ہی بجلی کے ریٹس بھی بڑھنے کی اطلاعات ہیں جبکہ پٹرول کے نرخ ہر پندرہ روز بعد بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ کیا آئندہ تین چار ماہ کے دوران موجودہ نرخ اسی طرح رہیں گے اور ان میں اضافہ نہیں کیا جائے گا؟ کیونکہ اگر ماضی کی روایات کے مطابق ہر پندرہ روز کے بعد پٹرول کے ریٹس بڑھائے جاتے رہے تو تین چار ماہ بعد ان میں کمی کردینے سے مہنگائی میں تو کمی نہیں ہوگی۔ حکومت کو اگر واقعی عوام کی تکالیف اور مشکلات کا احساس ہے تو اسے فوری طورپر پٹرول‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی کمی کرنا ہوگی تاکہ عوام کو حقیقی معنوں میں مہنگائی کم ہونے کے فوائد سے بہرہ مند ہونے کا موقع میسر آسکے۔