حال ہی میں نعیم فاطمہ علوی کا سفرنامہ’’حیرت کو تصویر کریں‘‘ میری نظر سے گزرا اس سفرنامہ میں ان کے احساسات اور تجربات شامل ہیں۔ زندگی میں قدم قدم پر لکھاری ملتے ہیں لیکن ان کو ادبی مزاج کا مواد بنانا صرف فن کار کا ہی کام ہے۔نعیم فاطمہ علوی کی کوشش قابل تحسین ہے۔ واقعات،تجربات اور احساسات کے بہت سے پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر ہر ایک کی نظر نہیں پڑتی۔ لیکن نعیم فاطمہ علوی کی نظر اپنے سفرنامے کی تہہ تک پہنچ کر معمولی واقعات کو غیر معمولی بنا دیتی ہیں۔ نعیم کوفاطمہ اپنے گردوبیش سے پوری آگاہی ہے۔ طرز تحریر خاصا دلچسپ ہے۔اکثر فیس بک پر میں ان کی تحیریریں دیکھتی تھی۔ ان کا سفرنامہ ’’حیرت کو تصویر کریں‘‘پوری فضا کو متعارف کرتا ہے۔ قاری پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہے کہ وہ پڑھ رہا ہے۔ اسے یوں معلوم ہوتا ہے نعیم فاطمہ علوی کے ساتھ وہ خود بھی سفر کر رہا ہے۔ وہ پیش لفظ میں لکھتی ہیں۔ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا سفرنامے کیوں لکھتی ہیں۔میں نے حیران ہو کر پوچھا کیاکہنا چاہتے ہیں۔وہ کہنے لگے کہ آپ نے سفر کیا ۔۔۔بہت ممالک دیکھے ہونگے۔اس نے کہا۔کوئی کیوں آپ کے مشاہدے کو پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرے ۔ تین ملکوں کے تجربات اور مشاہدات تحریر کرتے ہوئے مجھے یہی خیال دامن گیر رہا کہ انہیں کیوں لکھ رہی ہوں۔ تو کسی بھی سفر کی رودادلکھنے کیلئے مستعد رہنا پڑتا ہے۔ تجربے،مشاہدے اور احساس کو چھو جانے والے واقعات کو ہو بہو لکھنا پڑتا ہے ۔کہتے ہیں کہ زندگی کا سب سے بڑا تحفہ کسی کو وقت دیکر اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے۔ میرے خیال میں تجربات مشاہدات کو قلم بند کرکے دوسروں کیلئے فرحت وشادمانی کے ساتھ ساتھ آسانیاں پیدا کرنا بھی عبادت ہے۔ سفرنامہ میں اس کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔۔۔۔پہلی بار وہ اکیلی باہر کے ملک میں گھومتے پھرتے ہوئے ذرا بھر ڈر محسوس نہیں کرتی۔۔۔اندر سے تھوڑی گھبرا جاتی ہیں مگر تجربے کیلئے بڑے کونفیڈینس(confidence) سے کا م لیتے ہوئے جو بیٹی نے گائیڈ کیا ہو اسی پر عمل کرتی ہیں اور بیٹی کی رہنمائی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تجربے کے طور پر گھومتی ہیں۔حالانکہ میں نے زندگی میں بہت سفر کئے ہیں۔ اکیلے گھومنا میرے لئے مشکل نہیں تھا۔۔۔کیونکہ بہت دفعہ میں لندن میں اکیلی گھومی پھری ہوں۔۔۔شہر کا نقشہ ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود۔۔۔ تھوڑا سا خوف دامن گیر رہتا تھا۔۔۔کہ کہیں بھول نہ جائوں مگر فاطمہ علوی پہلی مرتبہ بہادری سے پھرتی رہیں۔ یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ نعیم فاطمہ کا اسلوب اپنا ہے۔ وہ اپنے ہم عصر لکھاریوں میں منفرد ہے۔ جو کچھ سفرنامے کے دوران دیکھتی تھیں اور اسی طرح لکھ دیتی۔۔۔سفرنامے تو بہت سے لکھے جا رہے ہیں۔۔۔ہر کوئی اپنے مشاہدے کے مطابق لکھتا ہے۔ مگر نعیم فاطمہ علوی کا سفرنامہ پڑھ کر قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔۔ بچوں کی محبت اسے سمندر پار لے گئی۔۔۔اور ان کی الفت میں صرف ایک نہیں تین سفر کئے۔ مصنفہ نے منظرنگاری کی تصویر کشی خوبصورت انداز سے کی ہے۔فاطمہ علوی کی پہچان اپنی ہے۔ انداز انفرادیت کوٹ کوٹ بھرا ہوا ہے۔ ان کی بھرپور کوشش تھی کہ جو دیکھا وہ صحیح طور پر قلم بند ہو جائے۔ اسلوب میں بہت مٹھاس ہے۔ اسے سفرنامہ لکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ ۔۔۔پھر کہنا پڑتا ہے کہ منظر کشی بہت عمدہ کرتی ہیں۔۔۔لکھتی ہیں۔’’جتنی دفعہ بھی لندن پہنچی ‘‘جھولے نہ جھول سکی۔ ہر دفعہ کوئی مجبوری آڑے آجاتی۔ اس روز صبح سویرے گھر سے نکلے اور مختلف جگہوں کی سیر کرتے ہوئے لندن آئی پہنچ گئے۔ گھر لندن آئی کا یہ اس دن آخری چکر تھا ۔ دریائے تھیمز کے کنارے دھیرے دھیرے چلتی ہوئی لندن آئی(London Eye) کے شیشے کے کمروں سے لندن کا نظارہ بہت دلچسپ تھا‘‘۔ ہماری سیر کی یہ آخری شام تھی۔ شام مسلسل ڈھل رہی تھی۔ ہم بمشکل سے آخری چکر کا حصہ دریائے تھیمز(Thames)۔۔۔پانی میں اچھلتی کودتی لہروں پر کشتیاں اور کشتیوں پر بیٹھے مسافر۔۔۔ان مسافروں کے چہروں پر اطمینان۔۔۔بلند و بالا عمارتیں۔۔۔عمارتوں پر جلتے ہوئے قمقمے دور دور تک روشنیوں سے جگمگاتے شہر کا مبہوت کر دینے والا حسن لندن آئی(London Eye) ہے‘ان سب مناظر کا دلکش نظارہ اتنا خوبصورت تھا کہ دل چاہتا تھا ہم عمر بھر یہ سب دیکھتے ہی رہیں اور وقت ختم ہو جائے۔اپنے بچوں اور رشتہ داروں کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہوا ہے۔ ان کے دوست احباب سفر کے دوران بہت مخلص اور مددگار ثابت ہوئے۔ مجھے خود ہمیشہ وہ محبت سے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی ہیں تو بہت بھلی لگتی ہیں۔ایک کتاب میں تین سفرنامے لکھے ہیں یعنی ایک تیر سے دو کی بجائے تین نشانے لگائے ہیں۔ غرض کہ آخر میں یہ کہوں گی کہ بہت عمدہ سفرنامہ ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اور سفر کریں اور بہت سارے سفرنامے لکھیں۔ (آمین)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024