وزیراعظم اور چیئرمین نیب کا کرپشن فری سوسائٹی کیلئے احتساب کا شکنجہ مزید کسنے کا اعلان اور روزگارکھلنے کا عندیہ
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا بنیادی ایجنڈا کرپشن کے خاتمہ کا ہے‘ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ گزشتہ روز سندھ سے تحریک انصاف اور اسکی اتحادی جماعتوں کے ارکان اسمبلی سے ملاقات اور کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک ترقی و خوشحالی سے محروم رہا ہے۔ انکے بقول ملک بھر میں احتساب کا عمل بلاتفریق و امتیاز اور بلاتعطل جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام کاروبار کے راستے میں آنیوالی ہر رکاوٹ ختم کرنا اور نوکریاں پیدا کرنا ہے۔ ہم ملک میں میرٹ سسٹم لا رہے ہیں‘ چھوٹے کاروبار کرنیوالوں کیلئے آسانیوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بزنس کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہماری کوشش ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اللہ نے خوبصورتی دی ہے‘ ابھی لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں مگر انہیں جلد نوکریاں اور سیاحت ملے گی۔ انہوں نے باور کرایا کہ کامیاب معاشرے میں شفافیت ہوتی ہے اور وہ معاشرہ لوگوں کو سہولتیں دیتا ہے۔ ہمیں نوجوان پروگرام میں شفافیت کا خیال رکھنا ہے۔
دوسری جانب چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ریاست مدینہ کے خواب کی تعبیر صرف حکومت کے بس میں نہیں‘ اس کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے راولپنڈی میں انسداد بدعنوانی کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست مدینہ کی تعمیر ناممکنات میں سے نہیں‘ اس کیلئے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے کرپشن کیخلاف اقدامات کا آغاز کرکے اپنی منزل کا تعین کرلیا ہے۔ نیب بلاامتیاز اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیب نے اپنے قیام سے اب تک 328‘ ارب روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں جو ایک ریکارڈ کامیابی ہے۔ انکے بقول ملک میں جتنی ترقی کرپشن نے کی ہے‘ کسی اور شعبہ نے نہیں کی۔ کرپشن ایک کینسر بن چکی ہے جس کی سرجری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کسی لالچ‘ خوف اور دھمکی کے بغیر بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے کوشاں ہے۔ کرپشن نے ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ احتساب کرنا اگر جرم ہے تو نیب یہ جرم کرتا رہے گا۔ ہمارا مشن ملک کی بہتری ہے‘ لٹیروں کو حساب دینا پڑیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کا بنیادی ایجنڈا ہے اور اسکے ناطے سے عمران خان نے ریاست مدینہ کا بھی تصور پیش کیا اور پھر اسی ایجنڈے کی بنیاد پر انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل کیا۔ اس مینڈیٹ کی پاسداری کرپشن فری سوسائٹی تشکیل دینے اور ریاست مدینہ کے خواب کو عملی قالب میں ڈھالنے سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ احتساب کا قومی ادارہ نیب پہلے ہی کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھا جس کے تحت سابق حکمران اپنے دور حکمرانی میں ہی احتساب کے عمل کی زد میں آئے۔ میاں نوازشریف اسی تناظر میں پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوئے اور تاحیات نااہل قرار پائے جس کے بعد نیب کے دائر کردہ ریفرنسوں میں میاں نوازشریف ہی نہیں‘ انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر بھی مستوجب سزا ہوئے جبکہ انکے دو صاحبزادے حسین اور حسن نواز‘ سمدھی اسحاق ڈار نیب کے مقدمات میں مفرور قرار پاچکے ہیں۔ انکے بھائی اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف اور بھتیجے حمزہ شہباز بھی نیب کے مقدمات کی زد میں ہیں۔ اسی طرح سندھ کی موجودہ حکمران اور سابق وفاقی حکمران پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری‘ انکی بہن فریال تالپور اور پیپلزپارٹی کے متعدد دیگر عہدیداران بشمول سپیکر سندھ اسمبلی اور سابق اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ بھی نیب کے مقدمات بھگت رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے متعدد لیڈران اور عہدیداران بشمول سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ سعدرفیق‘ سلمان رفیق بھی نیب کے مقدمات جیلوں میں پڑے بھگت رہے ہیں اور رانا ثناء اللہ انسداد منشیات ایکٹ کے تحت قائم مقدمے کا جیل میں سامنا کررہے ہیں۔ نیب کی تلوار ان دونوں موجودہ اپوزیشن جماعتوں کے کئی اور عہدیداروں اور کارکنوں کے سروں پر بھی لٹک رہی ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے دو ہفتے قبل ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے اب ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے کسی عہدے یا اختیارات کے بل بوتے پر نیب کے شکنجے سے بچ جائینگے تو یہ انکی بھول ہے۔ ان کا یہ کہنا بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب کے حوالے سے ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا تاہم ابھی تک ہوا کا رخ تبدیل ہوتا نظر نہیں آیا اور نیب کے سارے مقدمات اپوزیشن جماعتوں کے افراد کیخلاف ہی کھل رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی چیئرمین نیب نے یہی باور کرایا کہ چند خاندان ملکی دولت کے مالک بن گئے‘ ان سے یہ رقوم واپس لیں گے۔ اسی طرح گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنا شروع دن کا یہی موقف دہرایا کہ قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کرنیوالوں کے ساتھ کوئی ڈیل ہوگی نہ نظریہ ضرورت آئیگا بلکہ تمام بدعنوانوں کی باری آئیگی۔
اگر احتساب کا یہ عمل مکمل شفاف‘ بے لاگ اور بلاامتیاز ہوتا ہے جس کے شفاف اور بے لاگ ہونے کی عوام اور حکومتی مخالفین بھی گواہی دیں تو اس سے حکمران تحریک انصاف کے ایجنڈے کے عین مطابق کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل ممکن ہو جائیگی‘ بصورت دیگر نیب کے اقدامات و مقدمات سیاسی انتقامی کارروائیوں کے الزامات ہی کی زد میں رہیں گے اور بلیم گیم کی اس سیاست میں ماضی کی طرح ایک دوسرے کی جانب ہی دھول اڑائی جاتی رہے گی۔ نتیجتاً سسٹم پر اور اس سے وابستہ سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد بتدریج اٹھتا رہے گا۔ آج عوام کا اصل مسئلہ تو مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے جو ان کیلئے عفریت بن کر انہیں عملاً زندہ درگور کررہا ہے۔ بے شک پی ٹی آئی حکومت کو اقتصادی بدحالی اور اسکے تناظر میں پیدا ہونیوالے عوامی مسائل ورثے میں ملے ہیں جن سے عہدہ برأ ہونا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا تاہم اب پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار کے پندرہ ماہ گزر چکے ہیں اس لئے اب ہر برائی اور خرابی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر حکومت عوام کو مطمئن نہیں کر سکتی‘ انہیں بہرصورت مہنگائی سے خلاصی اور بے روزگاری کے خاتمہ کی ضرورت ہے۔ ریاست مدینہ کا تصور بنیادی طور پر ایک اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کا تصور ہے جس میں عوام کیلئے روٹی روزگار اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آئین کی بنیادی انسانی حقوق کی دفعات میں بھی ریاست کی اس ذمہ داری کا ہی احاطہ کیا گیا ہے چنانچہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر اور اب وزیراعظم کی حیثیت سے ریاست مدینہ کے تصور کو اجاگر کیا جس پر اب چیئرمین نیب بھی زور دے رہے ہیں تو عوام میں ریاست مدینہ کے فلاحی ریاست والے تصور کے تحت ہی اپنے اچھے مستقبل اور آسودہ زندگی کے حوالے سے ریلیف ملنے کا احساس اجاگر ہوا۔ اسکے برعکس وزیراعظم کی کابینہ کے ارکان فواد چودھری اور حفیظ شیخ یہ کہہ کر عوام میں مایوسی کی فضا پیدا کرتے رہے کہ روزگار دینا حکومت کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس ملازمتیں ہیں۔ اسی طرح حکومت کی معاشی ٹیم بھی غربت‘ مہنگائی کے گھمبیر ہوتے مسائل میں عوام میں امید کی جوت جگانے کے بجائے مشکل حالات برقرار رہنے اور مہنگائی مزید بڑھنے کی ’’نوید‘‘ ہی سناتی رہی جبکہ خود وزیراعظم عمران خان عوام کو یہ تلقین کرتے رہے ہیں کہ آپ مشکل حالات سے گھبرائیں نہیں‘ اچھے دن آنے والے ہیں۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے ملک کے اقتصادی استحکام کے حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں اور معروف عالمی ریٹنگ ایجنسی ’’موڈیز‘‘ کی تصدیقی رپورٹیں منظر عام پر آرہی ہیں جن میں پاکستان کی معیشت و اقتصادیات کے مستحکم بنیاد پر کھڑے ہونے اور عوام کیلئے روزگار کے مواقع نکلنے کا بھی عندیہ دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز انہی رپورٹوں کی بنیاد پر نوجوانوں کو خوشخبری دی کہ ان کیلئے روزگار کے مواقع بھی نکلنے والے ہیں اور ملک میں سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہورہا ہے جس سے قومی معیشت مزید مضبوط ہوگی۔ یقیناً یہی وہ مثبت صورتحال ہو گی جو پی ٹی آئی حکومت کیلئے عوامی اعتماد کی فضا مزید مستحکم کریگی اور اس سے وزیراعظم کے تصور کے مطابق ریاست مدینہ کی تشکیل ممکن ہو پائیگی۔ اگر وزیراعظم اور انکی ٹیم قومی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی جانب اپنی توجہ فوکس کئے رکھتی ہے تو اسکے ثمرات سے عوام کے مستفید ہونے کے راستے بھی کھل جائینگے۔ یہ اچھی حکمرانی کی بھی مثالی صورتحال ہوگی جس میں کرپٹ عناصر کیخلاف احتساب کا شکنجہ مزید کسنے کیلئے بھی عوام حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئینگے تاہم عوام کو انکے روزمرہ کے مسائل میں ریلیف دیئے بغیر اور انکی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کرکے احتساب کی عملداری پر ان کا اعتماد قائم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کیلئے عوام کو انکے مسائل میں ریلیف فراہم کرنا ہی آج بڑا چیلنج ہے۔ حکومت اس میں سرخرو ہوگئی تو اپوزیشن کی کوئی تحریک اسکے استحکام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔