اتوار‘ 10؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 8؍ دسمبر 2019ء
بلاول نے ننھی جیالی کی ملاقات کی فرمائش پوری کر دی
بہت خوب ایسا کر کے انہوں نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی اس ننھی پری کا دل جیت لیا۔ یہ ننھی جیالی آزاد کشمیر کے دورے میں بلاول سے ملاقات نہ ہونے پر مایوس بھی تھی اور ناراض بھی۔ پھر کسی نہ کسی طرح اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ آج کل سوشل میڈیا کا زور ہے۔ اس کی خبروں پر ایکشن بھی ہوتا ہے۔ سو بلاول جی نے بھی یہ ویڈیو دیکھ کر یا اس کے بارے میں کسی سے سن کر اس بچی کے والدین سے رابطہ کیا اور گھر جا کر اس بچی سے ملاقات کی۔ اسکے باقی بہن بھائیوں اورپاپا کے ساتھ تصویریں بھی بنائیں اور انہیں چاکلیٹ اور کنو کھلا کر منا لیا انکی ناراضگی دور کر دی۔ یہ اچھی بات ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ بلاول صاحب اگر سوشل میڈیا چیک کرتے یا انہیں اسکے حوالے سے بتایا جاتا ہے تو انہیں سندھ کے حوالے سے کوئی ویڈیو کیوں نظر نہیںآتی یا انہیں کیوں بتایا نہیں جاتا۔ اندون سندھ اور تھر میں خاص طور پر ایسے سینکڑوں پھول جیسے ننھے بچے اور معصوم بچیاں بھوک اور بیماری کی وجہ سے ہسپتالوں میں پسماندہ گوٹھوں میں سسک سسک کر دم توڑتی ہیں۔ کبھی بلاول جی ان کے کچے گھروندوں میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ وہاں بھی انکو بھٹو اور بے نظیر کی تصویر نظر آئے گی۔ مگر سندھ اور اسلام آباد کی بچیوں میں بچوں میں شاید بہت زیادہ فرق ہے ذات کا سماج کا سٹیٹس کا جسکی وجہ سے ان پر کسی کی نظر نہیں پڑتی۔ یا انکو دیکھنا پسند نہیں کیا جاتا کہ یہ تو اپنے کمی اور مزا رعے ہیں۔
٭…٭…٭
88.5 فی صدافغان امن مذاکرات کے حامی ہیں‘ سروے
خانہ جنگی اور غیر ملکی افواج کے ہاتھوں تباہ حال افغانستان میں اب شاید 88 فی صد آبادی ہی باقی بچی ہو گی۔ جس نے امن مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ ورنہ لاکھوں افغان جنگی کارروائیوں میں اپنوں اور دشمنوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں افغان پاکستان، ایران اور مغربی ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ ان کی اکثریت بھی اپنے ملک میں امن چاہتی ہے۔ گذشتہ 45 برسوں سے یہ ملک جو پہلے ہی شدید قدرتی آفات ‘ خشک سالی اور غربت کا شکار رہتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ دونوں متحارب قوتیں ایک دوسرے کو ختم کرنے کے نام پر افغانیوں کا لہو بہا کہ انہیں ختم کر رہی ہیں۔ اسی خانہ جنگی کی وجہ سے پہلے روس نے افغانستان کو ترنوالہ سمجھا اور اس پر چڑھ دوڑا۔ یہ سیکولر قوتوں کی فتح تھی۔ جو اب میں امریکہ اور مغربی ممالک نے پاکستان اور اسلامی دنیا کے ساتھ ملکر جہاد کا ایسا رنگ جمایا کہ سرخے میدان چھوڑ کر ہی نہیں دم دبا کر فرار ہوئے مگر افسوس ان کے بعدبھی امن افغانوں کو نصیب نہیں ہوا اور مجاہدین اسلام باہمی طور پر برسر پیکار ہو کر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑتے گاڑتے جیتی ہوئی جنگ ہار گئے۔ اب وہاں امریکہ اور اس کے لبرل اتحاد ی روس والی شکست سے بچنے کے لئے اور نجات کی راہ تلاش کر رہے ہیں جو ظاہر ہے امن مذاکرات کے بنا ممکن نہیں۔پاکستان‘ عالم‘ اسلام دنیا اور افغانی عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔
٭…٭…٭
ہم مجرم نہیں ‘ فاروق عبداللہ کا ششی تھرور کو خط
ایک مجرم نے خط لکھا بھی تو اس کو جسکی جماعت مسئلہ کشمیر کی سب سے بڑی مجرم ہے۔ اس پر تو ’’مجرم کو ملے مجرم کر کر لمبے ہاتھ‘‘ والا محاورہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کانگریس کے رہنماؤں کی پیداوار ہے۔ نہرو کو کشمیری ہونے کے ناطے کشمیر کا عشق سوار تھا۔ وہ ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس جرم میں اس کا بھرپور ساتھ سب سے بڑے کشمیری مجرم شیخ عبداللہ پدربزرگوار فاروق اللہ نے دیا تھا، آج اسی بڑے قومی مجرم کا بیٹا جو بعد میں خود بھی 40 برس سے اس جرم میں بھارت کے ساتھ شریک جرم رہا۔خود کو مجرم نہیں ہوں کہہ کر بھارت والوں کو اپنی صفائی پیش کر رہا ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ خود کو کشمیر کے رہنما کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب بھارت کے ملازم ہیں اور اٹوٹ رنگ بننے کی چاہت میں کشمیر اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے ذمہ دار بھی۔ بھارت کے ہوں نہ ہوںمگر یہ کشمیر اور کشمیریوں کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ سچ کہیں توغدار ابن غدار میں۔ ابھی تو یہ صرف نظر بند ہیں ابھی تو انہوں نے مجاہدین آزادی کی طرح تہاڑ جیل کا تشدداور جبر نہیں سہا۔ صرف نظر بندی نے انکی ساری ہوا نکال دی ہے۔ اب یہ شیر کی بجائے سگ بن کر اپنی اصل حیثیت پر واپس آ گئے ہیں۔ اب اپنی وفاداری جتانے کے لئے بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ تف ہے ان غداروں کی ایسی سطحی اور گھٹیا سوچ پر۔
٭…٭…٭
اورنج ٹرین 10 دسمبر کو آزمائشی طور پر چلائی جائیگی
جبھی تو لاہور والوں کو حیرت ہو رہی تھی کہ اورنج ٹرین کے پر روٹ پر اجڑے سبزے، ٹوٹی سڑکوں اور چوراہوں کی قسمت یہ راتوں رات کیسے تبدیل ہو گئی ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے عوام ان ٹوٹی سڑکوں چوراہوں اجڑی کیاریوں اور گرین لائنز کی دھول چاٹتے چاٹتے مختلف امراض کاشکار ہو رہے ہیں۔ اب شکر ہے اس اورنج ٹرین کے چلنے کی خوشی میں ان اجڑی راہوں کی بھی سنی گئی۔ شنیدمیں آیا ہے کہ آزمائشی سفر میں وزیراعلیٰ اور پنجاب کے وزرا اور اعلیٰ سول افسران بھی دوستوں اور احباب کے ساتھ یا اہلخانہ کے ہمراہ سفر کریں گے۔ یوں جنگل میں منگل کا سماں ہو گا۔ اور کئی لوگ…؎
پراں ہو جا سوہنیئے نی
ساڈی ریل گڈی آئی
کہتے ہوئے اورنج ٹرین کے بلندوبالا روٹ سے پورے لاہور کی سیر کرینگے‘ بلندی سے پورا لاہور دیکھیں گے او ر گاڑی کی چھک چھک کا مزہ بھی لیں گے۔ لاہور والے تو دوسال سے اس ٹرین کے چلنے کے خواب دیکھ رہے تھے جواب پورا ہوتانظر آ رہا ہے۔ جس سے لاہوریوں کی خوشی دیدنی ہے۔ ویسے یاد آیا اس ٹرین کا ایک آزمائشی افتتاحی سفر سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی کیا تھا اپنے دور کے اختتامی مراحل میں۔ اور روٹ بھی یہی تھا۔