امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سرا ج الحق نے رحیم یار خان میں کشمیر یک جہتی مارچ سے خطاب کے دوران حکمرانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے کیلئے لائحہ عمل دیں یا عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ حکمرانوں نے ایک طرف مہنگائی کا عذاب مسلط کرکے عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے تو دوسری طرف کشمیریوں کی مدد نہ کرکے نظریہ پاکستان سے غداری کی ہے۔ پاکستانی کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔مگر غیور عوام کی قیادت بزدل حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ 22دسمبر کو اسلام آباد میں کشمیر پر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ غیر انسانی کرفیو کو پانچواں مہینہ شروع ہوچکا ہے، گذشتہ پانچ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف ذرائع مواصلات بند ہیں بلکہ سکول و کالج، مارکیٹیں، گلی محلے کی دکانیں، منڈیاں غرض سب کچھ بند ہیں، اس ضمن میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ عام گھروں میں زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کا راشن جمع ہوتاہے اور جن گھروں میں گندم اکٹھی لی جاتی ہے ان میں زیادہ سے زیادہ چھ مہینے یا سال کی گندم جمع ہوتی ہے لیکن وہ بھی گندم ہوتی ہے جس کو ہرمہینے پسوانا پڑتا ہے، اب جب مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ پانچ ماہ سے بند پڑا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ مظلوم و مقہور کشمیری عوام کیا کھاتے ہوں گے؟
کیونکہ گھروں میں راشن ختم ہوچکا ہے، اور جب گھروں میں راشن ختم ہوجائے تو بازار سے خریدا جاتا ہے جہاں دکاندار راشن کا سامان ختم ہونے کی صورت میں منڈیوں سے مزید سامان لے آتے ہیں لیکن یہاں تو بازار بھی بند ہیں اور منڈیاں بھی تو اب کشمیری کیا کھاتے ہوں گے جبکہ موسم سرما کی برف باری بھی شروع ہوچکی ہے اور کشمیری کرفیو کی وجہ سے ایندھن کا بندوبست بھی نہیں کرسکے، وہ اس خون منجمد کرنیوالی سردی میں بھوک و پیاس کی حالت میں کیا کرتے ہونگے ۔
جبکہ اوپر سے کسی بھی وقت بھارت کے فوجی درندے اور آر ایس ایس کے غنڈے فوجی وردیوں میں ملبوس گھروں میں گھس کر بچوں، مردوں اور خواتین کو سرعام سب کے سامنے یکساں طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوں، پھر جاتے وقت بچوں کو اغوا کرکے ساتھ لے جاتے ہوں اور والدین کو یہ بھی نہ بتائیں کہ انکے بچوں کی کس جیل میں رکھا گیا ہے یا فوجی افسروں کے گھروں میں غلام بنا کر چھوڑدیا گیاہے۔
اب کشمیری مائوں اور بہنوں کے بین ہم پر اثر نہیں کرتے، کشمیری بچوں کے رونے کی آوازیں بھی ہم پر بے اثر ہوچکی ہیں، کشمیری ضعیفوں کی کراہیں بھی ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ پارہیں، دوسرے الفاظ میں ہم نے دہشت گردی کی ہر شکل کو تج دیا ہے تاکہ امریکہ بہادر کی نظروں میں ہم امن وآشتی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں۔کشمیر کے حوالے سے ہماری حمیت اور غیرت نہ جانے کہاں جا سوئی ہے۔
کیا مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی لٹتی عصمتوں پر خاموشی امن پسندی کی علامت ہے؟
کیا شہداء کی لاشوں پر قہقہے لگانا امن پسندی کہلاتی ہے؟
کیا بھوک کا شکار بھائی بہنوں کو بے سہارا مرنے کیلئے چھوڑ دینا ہی دنیا میں امن کی علامت ہے؟
اگر ایسا ہے تو ہمیں ایسے امن کی ضرورت نہیں پھر ہم دہشت گرد ہی بھلے کم از کم اپنے کشمیری بھائیوں کو یوں بے سہارا انتہاپسند اور دہشت گرد ہندوئوں کی درندگی اور بہیمانہ سلوک کے سامنے بے سہارا تو نہیں چھوڑیں گے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اگر آزاد کشمیر کے غیور عوام کشمیری بھائیوں کی مدد کیلئے جانا چاہیں تو وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ دیاہے کہ یہ کشمیریوں کی مدد نہیں بلکہ بھارت کی مدد ہوگی کہ وہ دنیا بھر میں کہہ دے گا کہ یہ سب پاکستانیوں کا کیا دھرا ہے اور بھارتی فوجیں پاکستانی دہشت گردوں کے مقابل کشمیر میں آئی ہیں۔
یہ تصور ہمارا اپنا تخلیق کردہ ہے اور اگر دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی بھارتی ریاستی دہشتگردی کو پاکستان کی دہشتگردی قراردیتی ہے تو پھر ہمیں بھی اپنے عمل میں آزادی اختیار کرتے ہوئے وہی کچھ کرنا چاہئے جس کی اس وقت ضرورت ہے پھر دنیا چاہے کچھ بھی کہے۔
آخر ہم پانچ ماہ سے صبر کرتے چلے آرہے ہیں اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے کہ پانچ ماہ سے بھارت کی دہشتگرد حکومت کشمیریوں کو کس وحشیانہ انداز میں اپنی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ آخر کوئی انسان دوست کب تک یہ مظالم برداشت کرتے ہوئے خاموش رہ سکتا ہے۔
اب صبرو تحمل کا وقت گزر چکا، اب دنیا اگر جان بوجھ کر اندھے پن کا مظاہرہ کرتی ہے اور اب بھی پاکستان کے کسی ایکشن کو دہشت گردی قراردیتی ہے تو ٹھیک ہے پھر ہم دہشت گرد ہی بھلے کم از کم اپنے بھائی بہنوں کو دہشت گرد اور تنگ نظر ہندوئوں کے آگے بے یارومددگار تو نہیں چھوڑیں گے۔
اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا موقف سو فیصد حقائق پر مبنی ہے اور وہ 22 دسمبر کو اسلام آباد میں کشمیریوں کی مدد کے حوالے سے جو بیان بھی دینگے عوام انکے ہر بیان پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے عمل کرنے کو آمادہ ہوں گے۔ اس موقع پر اگر عمران خان بھی کشمیری بھائی بہنوں کی مدد کے لئے ایک قدم آگے بڑھائیں تو عوام ان کے آگے آگے چلنے کو آمادہ ہوں گے بقول میر انیس …ع
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024