الحِمنی

آٹھ تلک ہم آنسو ہوئے ہیں آپ کریں گے دوا سہی
بدل جائیگی رُت بیرن بھی کٹ جائیگی سزا‘ کئی
جھڑ جائے پہلو سے اداسی‘ کہیں بھروسہ رکھ دیجے
ہو سکتا ہے‘ ہوسکتا ہے مان ہی جائے خدا کبھی
کھیت مرے کھلیانوں سے تو سب ہی شناسا ہو گزرے
رائگاں کبھی نہیں جاسکتی ہے گل امروزی دعا غمی
یہاں حقارت‘ بہت کدورت‘ اور محبت بے مقصد
الحِمنی ’’یوسف‘‘ کا تقدس جان سکے گا خطا گری‘‘