پاکستان کی سیاسی اشرافیہ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طبقہ پاکستان میں جاری جمہوری سیاست میں موجود بدعنوانی اور کرپشن کی سیاست کا خاتمہ اور ان معاملات میں بلاتفریق ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کو پہلی ترجیح دیتی ہے۔ دوسرے طبقے کے بقول ہمیں کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے میں اپنے جمہوری فریم ورک، قانونی دائرہ کار سے باہر نکلنے یا جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے سے گریز کرنا چاہئے جب کہ کہا جاتا ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کا علاج ہمیں اپنے جمہوری نظام میں ہی تلاش کرنا چاہئے تو یہ درست نقطہ نظر ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری جمہوری سیاست اور اس سے وابسطہ جمہوری افراد اس کرپشن اور بدعنوانی کا علاج جمہوری نظام میں تلاش کرنے کی بجائے خود اس کرپٹ نظام کا حصہ بن کر کرپشن پر مبنی سیاست کو تقویت فراہم کرتے ہیں یہ عجیب منطق ہے کہ جب کوئی کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کو چیلنج کر کے ا یک بڑیکارروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو ہم جمہوری نظام کا سہارا لیکر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ مسئلہ یہ جمہوری نظام کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں جمہوری نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے لیکن جمہوریت کے نام پر کچھ لوگوں نے ملک، معاشرہ اور قومی ترقی کے نام پر ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ جمہوری نظام کی بنیاد کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست نہیں بلکہ صاف ستھرا نظام اور قانون کی حکمرانی کے تابع ہوتی ہے جبکہ ہم نے جمہوری سیاست کے جو اصول اختیار کئے ہوئے ہیں وہ عملی طور پر جمہوریت کی نفی ہے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جمہوری نظام کے تسلسل سے نہ جمہوری نظام مضبوط ہو گا بلکہ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست ختم یا کمزور ہو گی لیکن ہمارے یہاں جو جمہوریت کا نظام چل رہا ہے اس میں کرپشن بدعنوانی، بری طرز حکمرانی اور آمرانہ مزاج کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اس کی ایک وجہ سیدھی سی ہے کہ ہمارا جمہوری طبقہ وہ فیصلے کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں جو جمہوریت کے نظام کو کمزور کرنے اور عدم شفاعیت میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے اس لیے پاکستان میں وہ افراد جو واقعی ، حقیقی، منصفانہ اور شفافیت پر مبنی جمہوری نظام چاہتے ہیں انہیں اپنے اندر موجود تضاد سے باہر نکلنا ہو گا سیاسی وابستگیوں کے قطع نظر ہمیں اس بنیادی نقطہ کو ایک بڑی سیاسی طاقت فراہم کرنی ہو گی کہ ہماری ترجیح شفاف حکمرانی کا نظام ہے جو لوگ بھی جمہوریت کی چادر لپیٹ کر یا اس نظام کا سہارا لیکر کرپشن، بدعنوانی اور مافیا سمیت غیر جمہوری حکمرانی کے نظام کا سیاسی جواز پیش کریں اس کی مزاحمت ہونی چاہئے اسی طرح ہمیں یہ آواز بھی اٹھانی چاہئے کہ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست ایک یا دو جماعتوں تک محدود کرنے کی بجائے تمام سیاسی، انتظامی ، کاروباری اور قانونی اداروں تک پھیلا کر اس کے خلاف ایک مضبوط رائے عامہ کی مدد سے رکاوٹ پیدا کی جائے اس سوال کا جواب ہمیں تلاش کرنا چاہئے یا کم از کم حکمران طبقات سے ضرور پوچھنا چاہئے۔ ماضی میں انہوں نے ایسے کون سے اقدامات کئے جو کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کو کمزور کرنے کا سبب بنے۔ سیاسی جماعتوں میں مجرمانہ ذہنیت اور سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کیونکر سیاسی جماعتیں کارروائی نہیں کر سکیں اور کیوں ان کے لیے سیاسی ج ماعتوں کے دروازے بند نہ کئے گئے معذرت کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے ان مجرمانہ لوگوں کی سرپرستی کر کے اپنی مفاداتی سیاست کو فائدہ پہنچایا۔ صرف جرائم پیشہ افراد ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں موجود سیاسی رہنمائوں نے بھی وہی گل کھلائے ہیں جو بدعنوان سیاست کو طاقت فراہم کرتے ہیں المیہ یہ ہے ابھی جو کچھ ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان میں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں یا وہ انکی سرپرستی کرتے ہیں اس منافقت کے ساتھ ہم جمہوری نظام کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں جو محض ایک خوش فہمی پر مبنی سیاست ہے اگر ہمیں جمہوری عمل چلانا ہے تو کچھ بنیادی باتوں، اصولوں سمیت قانونی نکات کے ساتھ جوڑ کر مستقبل کے طرف جانا ہو گا چلنا ہو گا یہ مثال منطق دی جاتی ہے کہ جمہوری نظام میں ووٹ کی طاقت ہوتی ہے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ رکھتے ہیں اور عوام کو ہی ان کو مسترد یا قبول کرنے کا اختیار ہے لیکن ہارے والے لوگوں نے الیکشن کو تسلیم ہی نہیں کیا آخر کیوں۔ کیا وہ خود بے ایمانی کی طاقت سے جیتے رہے ہیں یا جیتے ہو گے کیا وجہ ہے کہ اگر ان کے عوامی مینڈیٹ میں قانون شکن افراد یا کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے یا اس کا مطالبہ کیا جائے تو اس کا جواب ہمیںمینڈیٹ کے طعنہ کی صورت میں سننا پڑتا ہے شاید اسی لئے کچھ لوگوں نے الیکشن جیت کر اس کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی جماعتوں جو آمرانہ نظام یا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے اس کو کیسے توڑا جائے اس کا جواب بھی عوام کو سوچنا چاہئے اگر ہم اپنے اندر جموری اور شفافیت کا عمل لانے کے لیے تیار نہیں تو باہر کیسے تبدیلی آ سکتی ہے۔ اصولی طور پر یہ ہونا چاہئے کہ ہم سیاسی جماعتوں پر شفافیت پر مبنی نظام کے لئے دبائو ڈالیں لین ہمارا اپنا کردار یا طرز عمل بھی سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت میں موجود خرابیوں کو سیاسی طاقت فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے یہ کرپٹ اور بدعنوان طبقہ جمہوریت کا سہارا لیکر ہمیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ کر رہا ہے اگر اس نظام کو نہیں بچایا گیا تو پھر جمہوری نظام کی چھٹی ہو جائے گی اس میں وہ لوگ شامل ہونگے جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ہمیں جمہوری نظام کو بچانا چاہئے اور جمہوری نمائندوں کو ذاتی مفادات کو کم سے کم کرنے کی تلقین ضروری ہے 60/70 سال کے ملبے کو اٹھانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے تین نسیں تو جمہوری کرپشن میں چل رہی ہیں اسی لیے پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کو روکنا مشکل ترین لگ رہا ہے اور شاید جمہوری نظام پاکستان میں اس شرط پر پورا اتر نہیں رہا بدقسمتی سے رائے عامہ کی تشکیل میں شامل ایک خاص طبقہ خود بھی حکمرانوں اور مفادات پر مبنی سیاسی گروہ کا نمائندہ بن کر لوگوں میں سچ دبانے ک کوشش کر کے منفی اعتمال پر پردہ ڈالتا ہے اس طبقہ کے بقول اگر بڑے بڑے افراد مفادات کی سیاست میں مگن ہیں تو ہم کیونکر اس محاذ میں پیچھے رہیں موجودہ حکومت میں شامل افراد کی اکثریت سابقہ حکومتوں میں شامل رہنے والے افراد کی ہے اور سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ کرپشن اور بدعنوانیوں میں سرِفہرست ہے ان معزز افراد کو بھی عوام اور سول بیورو کریسی کو مکمل یقین دلانا ہو گا کہ وہ اگر کسی سابقہ حکومتوں میں شامل تھے لیکن ہم نئے حالات کے مطابق ایمانداری دل جمی کے ساتھ موجود حکومت کے ساتھ چلیں گے لیکن اگر کچھ لوگوں نے نئے حالات کے مطابق اپنی سوچ اور روش نہ بدلی تو پھر شائد پاکستان میں کوئی دوسرا نظام آ جائے ۔ خالی جمہوریت، جمہوریت سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا عوام کو زندگی گزارنے کیلئے سہولیات امن و امان کی سخت ضرورت ہے۔ ٹیکس ٹیکس کے نام بھی درمیانی طبقہ اور غریبوں کا بھرکس نکالا جا رہا ہے ۔ مہنگائی، یوٹیلٹی بلز نے عوام کا جینا مشکل ترین کر دیا ہے۔ نظام بدلنا ہو گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024