کرپشن کے پردے کھلے جا رہے ہیں

عمران کی حکومت اور مخالف سیاسی رہنماؤں کے درمیان یکجہتی کے بجائے اختلافات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر حکومتی ارکان اور حزب مخالف نے ایک متفقہ قرارداد پاس کر دی ہے لیکن دیگر معاملات پر حکومتی پالیسیوں پر زبردست تنقید جاری ہے۔ وزیراعظم نے الیکشن کمشنر کا تقرر کیا تھا۔ متحدہ حزب مخالف نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 213 کی خاموشی سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ الیکشن کمشن کی دیگر ممبران کی تقرری کے معاملے پر بھی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان ڈیڈ لاک جاری ہے۔ متحدہ حزب مخالف کے ارکان پر مشتمل رہبر کمیٹی نے اس معاملے پر بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر پانچ دسمبر کو ریٹائر ہو چکے ہیں اور باقی دو ممبران جنوری میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ انکی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمشن غیر فعال ہو جائیگا۔ آرٹیکل 213 میں ان حالات کے بعد کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ آرٹیکل 213 کی خاموشی سے آئینی بحران پیدا ہو جائیگا۔ کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث واحد راستہ سپریم کورٹ ہے۔ حکومتی اراکین نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے دس روز کی مہلت کی درخواست کی جائیگی۔ تحریک انصاف کے پرویز خٹک نے بیان دیا ہے کہ الیکشن کمشن کے معاملے پر باہمی مشاورت ہوئی ہے ارکان کی تقرری کا معاملہ حل ہونے کے بعد آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے متعلق فیصلہ ہو گا۔ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے بارے میں مخالف جماعتوں سے رابطے ہوئے ہیں۔ قانون سازی کیلئے حزب مخالف جماعتوں سمیت سب ہمارے ساتھ ہوں گے۔تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان نے اعلان کیا ہے کہ تمام آرمی فورس وفاقی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ آرمی چیف سے متعلق قانونی ترمیم ہو گی۔ آئینی ترمیم نہیں ہو گی۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ نون کی پارلیمانی کمیٹی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کی حمایت یا مخالفت کا حتمی اختیار پارٹی کی اعلیٰ قیادت نوازشریف اور شہبازشریف کو دے دیا ہے۔ شہبازشریف نے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کیلئے انہیں لندن بلوا لیا ہے۔ خواجہ آصف کی قیادت میں پانچ دسمبر کو یہ وفد لندن جا چکا ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید نے اس موقعہ پر اعلان کیا ہے کہ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی غیر ملکی فنڈنگ چیک کی جائے۔ مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان برے طریقے سے شکنجے میں آجائینگے۔ آصف زرداری نے بھی بہت کالا دھن بنایا ہے۔ لیکن وہ حکومت سے پلی بارگین کی پیکج ڈیل کرنے کو تیار نہیں۔ وہ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر اور کمیٹی ارکان کی تقرری پر بھی راضی نہیں۔ فردوس عاشق اعوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے عوام نے جن کو رہبر سمجھا وہ راہ زن ثابت ہوئے۔ شریف خاندان نے منی لانڈرنگ نہیں کی تو نیب قانون کے مطابق فیصلے کریگا۔ فردوس عاشق اعوان یہ اعلان بھی کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی خواتین کہ بااختیار اور جائیداد میں حصہ داری بنانے کیلئے قانونی اور عملی اقدام اٹھائے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کیلئے قانون سازی عمران خان کے قیادت میں نئے پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ شریں مزاری نے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ارکان الیکشن کمشن اور چیف الیکشن کمشنر کے معاملہ پر حکومتی ارکان حزب مخالف سے رابطہ کریں گے اور چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمشن کا فیصلہ حکومتی اور حزب مخالف کے ساتھ اتفاق رائے سے کیا جائیگا۔ پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں معاشی میدان میں ترقی پر امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی معاشی ترقی کو سراہا جا رہا ہے اور پاکستان کی معاشی درجہ بندی میں بہتری پر بہت خوش ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے انکشاف کیا ہے کہ فولیو سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور غیر ملکی تجارت میں 286 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
اب آتے ہیں حزب مخالف کے جذباتی ردعمل کی طرف، شہبازشریف نے لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مجھ پر یا بچوں کر کرپشن ثابت ہو گئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ وزیراعظم نے نیب کے گٹھ جوڑ سے میرے اثاثے اور جائیدادیں منجمد کر دیئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو یوٹرن ماسٹر قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیازی اور نیب گٹھ جوڑ ایک مرتبہ پھر ناکام ہوا ہے۔ اور سپریم کورٹ نے ہمیں سرخرو قرار دیا ہے۔ صاف پانی اور آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا تو دونوں مقدمات میں میرٹ پر ضمانت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پر جھوٹ اور سچ کو الگ کر ے دکھا دیا۔ اللہ نے ہمیں عدالت عظمی میں سرخرو کیا اور پوری قوم نے دیکھا کہ ہماری نیک نیتی کی گواہی کی آواز عدالت عظمیٰ میں سنائی دی گئی۔ پی ٹی آئی نے نعیم بخاری سینئر قانون جان کو عدالت میں مقدمے کا دفاع کرنے کیلئے پیش کیا۔ عدالت عظمی نے ان سے سوالات کیئے لیکن جب نعیم بخاری نے دیکھا کہ انکی دال نہیں گل رہی تو انہوں نے اسی میں عافیت جانی کہ میرے خلاف جو درخواست زیر سماعت ہے اسے خود ہی واپس لے لیں۔ ہمارے لئے عزت کی اس بڑی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔مجھ پر یا میرے بچوں پر کرپشن ثابت ہوئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ یہ بیان اپنی جگہ لیکن شریف فیملی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اتنی زیادہ دولت انکے ہاتھ کس طرح آئی کہ انہوں نے بیرون ملک مہنگی ترین جائیدادیں خریدیں اور اپنے بیٹوں کو کروڑوں ڈالر کے کاروبار بنا کر دیئے۔ کیا آپ براہ راست کالا دھن سفید کرنے کے کاروبار کو تحفظ دینے کیلئے سرپرستی نہیں کرتے تھے۔
شریفوں نے جو کچھ کیا کالا دھندہ
کرپشن کے پردے کھلے جا رہے ہیں