براہ ِکرم خوشامد سے اِجتناب کیجیے!

جنرل ضیاء الحق کا دَور تھا، وہ آئے روز تقریبات کی رونق بھی بڑھاتے رہتے تھے۔ ایسی ہی ایک تقریب تھی کہ نماز کا وقفہ ہُوا۔ نماز پڑھ کر واپس آنے کیلئے و ہ جب جوتا پہننے لگے تو کچھ جدوجہد کرنا پڑی ۔ غالباًجوتا تنگ ہو گیا تھا یا موٹی جراب کی وجہ سے پہننے میں دقت ہوئی ۔ اگلے ہفتے ایک اور تقریب میں نماز کا وقفہ ہُوا ۔ جونہی جنرل ضیاء الحق نے جوتا پکڑا ، ایک صاحب نے تیزی سے ہاتھ آگے بڑھایا، جس میں ایک عدد جوتا پہننے میں مدد دینے والا آلہ بھی تھا۔ جنرل صاحب نے اپنے اس مہربان کا شکریہ ادا کیا مگر قریب ایک صاحب کا دبے لفظوں میں تبصرہ بھی سُنا ۔ کہا گیا تھا کہ خوشامد کی بھی حَد ہوتی ہے ۔ اگلی نماز پڑھنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کرسی پر بیٹھ کر جوتا پہننے لگے تو اُنکے مہربان نے اس مرتبہ بھی مدد کرنا چاہی توجنرل صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جلدی سے جوتا پہنا اور مخاطب ہوئے کہ محترم !آپ کا ممنون ہوں ۔ میرا یہ جوتا کچھ کُھلا ہے، اس لئے ایسے اہتمام کی ضرورت نہیں ۔ اس پرقریب کچھ لوگوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بات ختم ہو گئی ۔ جنرل صاحب تقریب سے واپسی کیلئے اپنی گاڑی کی طرف چلے گئے ۔ چلتے چلتے انہوں نے اپنے ایک سٹاف ممبر کو قریب بُلا کر کچھ کہا ۔ فوراًہی وہی اعلیٰ سٹاف افسر جنرل ضیاء الحق کے ’’مہربان‘‘کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا ۔ سٹاف اَفسر نے کہا کہ جنرل صاحب آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ اگر کوئی کام ہے تو بتا دیں ۔ اس پر ’’مہربان شخص‘‘نے جوابی شکریہ ادا کیا اور بتا یا کہ وہ جنر ل ضیاء الحق کابہت بڑا مداح ہے، جنرل صاحب کو چند روز قبل جوتا پہننے میں دِقت ہوئی تھی ، اس پر وہ جوتا پہننے میں مدد دینے والا آلہ لیکر آیا تھا ۔ سٹاف آفیسر نے کہا کہ جنرل صاحب نے فرمایا ہے کہ آپکے اس اچھے عمل پر بعض لوگ غلط تبصرہ کرتے ہیں ، اُنکے نزدیک یہ ایک خوشامد ہے براہِ کرم آپ آئندہ یہ کام نہ کریں۔
اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ خوشامد کرکے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ خوشامد ی لہجہ او ر انداز اختیار کر کے صاحب ِاقتدار شخصیت اور مالدار لوگوں سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا عام طور پر بیورو کریٹس کو رام کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔ ہر رو ز جگہ جگہ یہ منظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اپنے مشاہدے کی بات کی جائے تو یہ بات حقیقت بن کر سامنے آتی رہتی ہے۔ اپنے ایک مہربان علم دوست پرنسپل گورنمنٹ ایم۔ اے ۔ او کالج پروفیسر ریاض احمد ہاشمی کے دفتر میں بات چیت ہو رہی تھی ۔ایک آنے والے ملاقاتی نے بے حد ادب اور احترام کے ساتھ اُنکے گھٹنوں کو چھوا اور ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا، آج آپکے چہرے کو دیکھتے ہی مجھ پر ایک کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اللہ کا فضل و کرم بے حساب دکھائی دے رہاہے ۔پھر انہوں نے کہا کہ آج جو پرفیوم آپ نے استعمال کیا ہُوا ہے، یہ تو جرمنی ، فرانس یا امریکہ ہی سے ملتا ہے ۔ میںبہت سے لوگوں کو ملتا رہتاہوں۔ آپ کا انتخاب تو لاجواب ہے ۔ پھر اُن صاحب نے دفتر کی خوبصورتی اور ڈیکوریشن کی بار بار تعریف کر کے اُنکے جوتوں کی چمک کو بھی اپنی خوشامد کا حصّہ بنایا۔ اس پر پرنسپل ہاشمی صاحب نے اُن صاحب کی باتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی مہربانی ہے مگر اس قدر بے جا تعریف نہ کیا کریں، یہ چاپلوسی اور خوشامد بن جاتی ہے ۔ میں تو آپ لوگوں کی خدمت کیلئے یہاں موجود ہوں ۔فرمائیے، کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ ہمارے مہربان دوست نے تو خوشامد اور چاپلوسی سے بیزاریت اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ملاقاتی کو آئندہ باز رہنے کی ہدایت کر دی مگر بہت سے لوگ اپنے ملنے والوں کی خوشامد اور چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں اور حقیقت سے بعید باتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ خوشامد پسند شخصیات کے اس روئیے کی وجہ سے بھی خوشامد ی لوگوں کو اپنے مقاصد کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ اگر یہ متضاد اور حقائق کے منافی سلسلہ منافقت پر مبنی طرز عمل کامیابی سے جاری ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خوشامدیوں اور خوشامد پسندوں کے سمجھوتے موجود ہیں ہمیں اس پر غور کرنا چاہیئے۔ اِس میں شک نہیں کہ بڑی تعداد میں خوشامد کو پسند کرنے والے لوگ موجود ہیں تا ہم یہ بات بھی حوصلہ افزأہے کہ مقتدر حلقوں کی شخصیات سے لیکر بیورو کریسی تک میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں، جو خوشامد کے خاتمے کیلئے ذہنی طو ر پر تیار رہتے ہیں۔ ایک سنیئر اعلیٰ پولیس آفیسر نے ایک خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ محکمے اور دفتر میں خوشامد ی طرز عمل برداشت نہیں کیا جائیگا ۔ آئندہ کوئی جونیئر آفیسر اپنے سنیئر آفیسرز کی گاڑی کا دروازہ نہیں کھولے گا او نہ ہی ایسا رویہ اختیارکریگا ، جس سے خوشامد اور چاپلوسی کا تاثر نمایاں ہوتا ہو۔ یہ بہت غنیمت ہے کہ کسی سرکاری محکمے کے اعلیٰ سنیئر آفیسر نے خوشامد کی روک تھام کیلئے ایک کوشش تو کی ہے ۔ ایسی کوشش کرنے والے اور بھی آفیسرز ہونگے ۔اللہ کرے کہ خوشامد کی لعنت کے خاتمے کیلئے سر گرم ہونے والے تعداد میں ذیادہ ہو جائیں اور اُنکی کوششیں کامیابی سے ہمکنار بھی ہوں ۔ معاشرے میں خوشامد کے ساتھ ساتھ غیبت کا روگ بھی موجود ہے۔ جس سے بچنے کیلئے دین اسلام میں سخت ممانعت کی گی ہے جبکہ روز قیامت اسکی سزا کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے خوشامد او ر غیبت سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم خوشامد سے نہ صرف خود باز رہیں بلکہ دوسروں کو بھی ا س سے دُور رکھنے کی کوشش کریں جبکہ غیبت کے حوالے سے بھی اپنی زبان کو بند رکھیں۔ کیا ہم اس برائی کے خاتمے میں کوئی کامیاب کردار ادا کرسکتے ہیں؟کاش یہ خواب شرمندہ تعبیر ثابت ہو ،کیا یہ ممکن ہے؟