بریگیڈیئر صولت رضا نے غیر فوجی کالم کے عنوان سے کتاب چھپوائی ہے ۔ اسی عنوان سے وہ اخبارات میںکالم بھی لکھتے ہیں۔ ایک کتاب انہوںنے کاکولیات کے نام سے بھی لکھی تھی جو شاید غیر فوجی تحریر نہیں تھی۔ بلکہ آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر صدیق سالک کی مہر سے شائع ہوئی تھی۔ خود بریگیڈیئر صدیق سالک نے۔۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ۔۔نامی کتاب لکھی جو غیر فوجی تحریر نہیں تھی۔ اس پر جی ایچ کیو کے کسی جنرل کی مہر ثبت ہوئی ہو گی ورنہ حاضر سروس فوجی کتاب کیسے لکھ سکتا ہے۔ کیا دنیا میں حاضر سروس فوجی کتابیں لکھتے ہیں۔ شاید لکھتے ہوں۔ نصاب میںپڑھانے کے لئے ۔ اس پر بریگیڈیئر صولت رضا ایک غیر فوجی کالم لکھ کر میری راہنمائی فرمائیں۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ ایک امریکی جنرل پیٹریاس نے نشے میں دھت ہو کر بعض کلمات صدر اوبامہ کے بارے میں کہہ دیئے تھے تو اسے نوکری سے برخواست کر دیا گیا تھا۔ ویسے پیٹریاس کی باتیں تو سچی تھیں مگر ہر کوئی سچ لکھنے اور سچ بولنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک جنرل نے آئی ایس آئی چھوڑنے کے بعد بھارتی را کے ریٹائرڈ سربراہ کی شراکت میں ایک کتاب لکھی جس پر انہیں سزا ہو گئی۔ اب پتہ نہیں بھارتی را کے جرنیل کو بھی کوئی سزا ہوئی یا نہیں، اس کتاب کے بعد تو یہ روایت پڑ سکتی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے حاضر سروس جنرل دونوں ملکوںکی افواج کی مشترکہ کمان سنبھال لیں۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں آیا تو ایک انگریز جرنیل نے دونوں ملکوں کی متحدہ کمان بھی سنبھالے رکھی تھی اور اسی نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمایا تھا جبکہ پاکستان میں موجود انگریز آرمی چیف نے قائد اعظم کاحکم ماننے سے انکار کیا اور یوں کشمیر پر بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار کی۔
صولت رضا نے اپنی کتاب اور اپنے کالموں کو غیر فوجی کیسے کہہ دیا۔ فوجی ہمیشہ فوجی ہوتا ہے، اب تو عدالتی مقدمے میں یہ راز کھل گیا ہے کہ جرنیل کبھی ریٹائر نہیںہوتا مگر اس پر عدلیہ نے بہت سے سوال اٹھائے۔امریکہ میں کوئی جج ریٹائر نہیں ہوتا ۔ امریکہ میں سابقہ صدر کو بھی صدر ہی کہتے ہیں اور سابقہ گورنر کو بھی گورنر ہی کہتے ہیں۔ اسی لئے میں جب بھی میاں اظہر سے ملتا ہوں تو انہیں گورنر ہی کہتا ہوں۔ میاںنواز شریف کے ماننے والے انہیں ہمیشہ وزیر اعظم ہی کہتے ہیں ۔ خواہ وہ نااہل ہو چکے اور صا دق و امین کے شرف سے بھی محروم ہو چکے۔
صولت رضا نے محض عاجزی اور انکساری کے اظہار کے طور پر اپنی کتاب کو غیر فوجی کالم کا نام دیا ہے ورنہ یہ سراسر فوجی کالم ہیں اور رہیں گے۔ یہ عاجزی بھی ان پر کاکول اکیڈمی نے مسلط کی تھی۔ صدیق سالک نے صولت رضا کی کتاب کاکولیات کے دیباچے میں لکھا تھا کہ یہ شخص پہلے ہی منحنی سا تھا اوپر سے کاکول کی گھٹنائوں نے اس کا قد ہر طرف سے دو چارا نچ کم کر دیا۔ اب ایسے بندے کے لئے عاجز ہونا ایک مجبوری بن گئی ہے ۔
کاکولیات سے مجھے خیال پیدا ہورہا ہے کہ آئندہ کسی جرنیل کی کتاب کا نام ٹویٹیات بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اب ہر کام ٹویٹ سے چلتا ہے۔ ہر بڑی اور چھوٹی خبر ٹویٹ سے سامنے آتی ہے۔ میں ایک اخبار نویس کے طور پر ٹویٹ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی بجائے پریس ریلیز جاری ہو نی چایئے اور اسے قومی ریڈیو ، ٹی وی پر نشر کیا جائے اور نیوز ایجنسیوں کے ذریعے اخبارات تک پہنچایا جائے۔ ٹویٹ کا پلیٹ فارم کسی اور کی ملکیت میں ہے۔ فوج کے پاس آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ ہے۔ اس پر پریس ریلیز لگائی جا سکتی ہے اور dg@ispr.gov.pk سے بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہوگا مصدقہ سورس، باقی ٹویٹ شویٹ تو ایک کھلواڑ ہے۔، خیر صولت رضا کھلواڑ نہیں کرتے ، قلم سے لکھتے ہیں اور اخبار میں چھپتے ہیں۔ مگر وہ اپنی تحریر کو غیر فوجی ہر گز نہ کہیں،جس طرح جماعتئے کے اندر سے جماعت نہیں نکلتی۔ اسی طرح فوج بھی گھٹی کا حصہ بن جاتی ہے۔روح میں حلول کر جاتی ہے اور ڈی این اے کے ذریعے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔
اگر صولت رضا مصر ہوں کہ وہ تو غیر فوجی کالم لکھتے ہیں اور لکھتے رہیں گے تو پھر ہم لوگ جو کچھ لکھتے ہیں وہ غیرضروری کالموں کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا فوجی کالم صرف فوجی ہی لکھ سکتا ہے۔یہ سوال قابل غور ہے تو اس کے پیش نظر جو کچھ عنائت اللہ۔ ریاض بٹالوی، الطاف حسن قریشی، تجمل حسین اور خود میںنے فوجی موضوعات پر لکھا۔ اسے کس کھاتے میں شمار کیا جائے گا، شاید غیر ضروری کالموں کے کھاتے میں۔
مگر صولت رضا کی کتاب کاکولیات ہو یا غیر فوجی کالم یہ ہیں تو مزے کی چیز۔ کتاب تھام لیںتو ختم کرنے سے پہلے آپ اسے بند نہیںکر سکتے۔ مزاح کا لطیف سا تڑکا آپ کے بد ہضمی کے شکار پیٹ میں چلبلی پیدا کردیتا ہے اور اداسیوں کے مارے دماغ میں بشاشت کھیلنے لگتی ہے۔ صولت رضا سے ان کی تحریر کے ذریعے ا ٓدھی ملاقات تو ہو ہی جاتی ہے۔ فون پر بات ہو جائے تو وہ گد گدی کرتے ہیںاور فیس بک پر صرف ایک لفظی تبصرے سے اپنی دانش کی دھاک بٹھادیتے ہیں۔
تو یہ غیر معمولی کالم کیا ہوتا ہے۔ صحافتی زندگی میں ابھی تک چند بار ہی غیر معمولی کالموں نے مجھے وجد کی کیفیت سے سرشار کیا ہے،کربلا کی ایک سیاہ رات کو امام عالی مقام حسین ابن علی ؓنے شمعیں گل کر دیں اور ساتھیوں کو اجازت دی کہ وہ ساتھ چھوڑنا چاہیں تو تاریکی کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے واپسی کی راہ لے سکتے ہیں مگر صبح کو گنتی کی گئی تو ان کے بہتر جانثارموجود تھے اور شام تک کربلا کے میدان میں بہتر سر کٹی لاشیں۔اندلس کے ساحل پر طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دیں اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے مہیب دشمن ، اب فتح یا شہادت کے سوا کوئی تیسرا راستہ باقی نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جنرل ڈیگال نے لندن سے اپنی محکوم فرانسیسی قوم سے کہا تھا کہ میں تمہیں لڑنے کا نہیں مرنے کا حکم دیتا ہوں۔ فیلڈمارشل ایوب خان نے چھ ستمبر پیسنٹھ کی صبح قوم سے نشری خطاب میںیہ کہا کہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔چند ماہ قبل جب ہماری فوج نے نئے بجٹ میں مراعات میں اضافہ لینے سے رضاکارانہ معذرت کی تو اس پر بھارت نے تمسخر اڑایاکہ کم بجٹ کے ساتھ پاک فوج بھارت کا کیا مقابلہ کر پائے گی تو پاک فوج نے جوجواب دیا یہ بھی غیر معمولی کالم میں شمار کیاجائے گا۔ پاک فوج نے کہا تھا کہ جب ستائیس فروری کو آزاد کشمیر پر حملہ آور ہونیو الے ابھی نند ن کو گرایا تھا تو بھی ہمار بجٹ یہی تھا۔ یہ ہوتا ہے غیر معمولی کالم۔
ایک دکھی کالم بھی ہوتا ہے۔ سولہ دسمبر کو جنرل یحییٰ خان نے کہا تھا کہ ایک محاذ پر جنگ بند ہو جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ۔ یہ جنگ جاری رہے گی اور شام تک جنرل یحییٰ خان کا نام تاریخ کے صفحات میں حرف غلط کی طرح مٹ چکا تھا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024