بلاول بھٹو نے کراچی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور میں کتنے فلائی اوور اور انڈر پاس بنے، خیبر پختونخوا میں کتنے ہسپتال بنے، کہتے ہیں وزیراعظم نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے پنجاب حکومت پر بھی تنقید کی ہے۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور پاکستان میں عوامی حکومت بنا کر رہیں گے۔
بلاول بھٹو کی بے چینی کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ان کی جماعت کے سرکردہ لوگ جس طرح کرپشن کیسز میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کی حکومت کتنی عوام دوست ہے اور عوامی خدمت کے نام پر ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی وارثوں نے پاکستان کی مظلوم اور معصوم عوام کے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے۔ آج جس معیشت کی خرابی کا درد انہیں ہو رہا ہے یہ تباہی بلاول بھٹو اور ان کے سیاسی دوستوں کی مرہون منت ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جتنا قرض غریب عوام پر لادا گیا ہے اس بارے میں بلاول بھٹو زرداری کو ضرور بتانا چاہیے۔ بچے جوان ہوئے بوڑھے ہوئے اور دنیا سے بھی چلے گئے لیکن عوام کو ریلیف دینے کے دعویدار آج تک سندھ سے غربت ختم نہیں کر سکے، عام آدمی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ پینے کو پانی نہیں ملتا، سونے کے لیے چھت نہیں ہے اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ہے اور چلے ہیں عوام کو ریلیف دینے اور عوامی حکومت قائم کرنے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ برسوں پیپلز پارٹی نے سندھ پر حکومت کی ہے اس کا نتیجہ کیا ہے۔ نہ امن و امان ہے نہ تعلیم ہے نہ روزگار ہے پھر انہی مظلوموں کے ووٹوں سے حکومت حاصل کرنے کے بعد بلاول اور ان کے بڑوں نے ترقیاتی کام کہاں کروائے ہیں۔ عوام کی ترقی تو نظر نہیں آتی البتہ ان کی جماعت سے منسلک الیکشن لڑنے والوں نے بہت ترقی کی ہے۔ یہ جو ہر سال سینکڑوں لوگ، پانی اور علاج کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں کیا ان کا شمار پاکستان کی عوام میں نہیں ہوتا۔ کیا انہیں ریلیف دینا بلاول بھٹو یا ان کی جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا وہ مظلوم ہر انتخابات میں صرف مہریں لگانے کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو سلیکٹڈ لفظ سے خاصی محبت ہے۔ ہر مرتبہ انتخابات میں سندھ میں جیسے ان کے لوگ سلیکٹ ہوتے ہیں انہیں اس کی حقیقت بھی عوام کو ضرور بتانی چاہیے۔ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر ان کے سیاست دان اپنے لیے تو یہ سب چیزیں وافر مقدار میں جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ان کی حکومت میں عوام آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کے لیے خوار ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ اور پاکستان کی عوام پر رحم کرے اور کچھ نہیں تو کم از کم سچ بولنا ہی شروع کر دے۔ ہماری عوام بہت فراخدل ہے وہ یقیناً انہیں معاف کر دیں گے۔
آج کراچی کی جو حالت ہے یہ کسی اور کے دور حکومت میں نہیں ہوئی اس کی ذمہ داری بلاول بھٹو زرداری کی جماعت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کے معاشی گڑھ کو جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بنا دیا گیا اور بلاول بھٹو کی حکومت چپ چاپ دیکھتی رہی۔ کراچی کا امن تباہ کر دیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی عوام کو ریلیف دینے کے نام پر خاموش رہی۔ کراچی کو گندگی کے شہر میں بدل دیا گیا اور بلاول بھٹو کو ہر طرف خوشبودار پھول نظر آتے رہے۔ یہ ان کی گورننس ہے اور یہ ان کی سیاست ہے۔ اس سارے سیاسی عمل میں دور دور تک کہیں بھی عوامی فلاح کا پہلو نظر نہیں آتا البتہ سیاست دانوں کی فلاح و بہبود ریاست کے وسائل سے خوب ہوئی ہے۔جوش خطابت میں بلاول بھول جاتے ہیں کہ ان کی حکومت میں انسان کتوں کے کاٹنے سے مرتے رہے ہیں۔ نہ یہ انسانی حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ بیمار جانوروں کے علاج کی اہلیت رکھتے ہیں پھر کس ڈھٹائی کے ساتھ عوام کو گمراہ کرنے، ان کی ہمدردی حاصل کرنے اور اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے حکومت کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔
بلاول بھٹو کو چاہیے کہ اپنے والد کا خیال رکھیں، ان کے علاج پر توجہ دیں۔ انہیں توجہ اور بہتر علاج کی ضرورت ہے۔ سندھ میں اچھے ہسپتال بنانے پر توجہ دیں۔ سندھ کے عوام کو تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دیں۔ وفاقی حکومت پر برستے رہیں لیکن اپنا احتساب بھی کر لیں۔ مالی معاملات کا حساب تو نیب کر لے گا لیکن خود احتسابی کریں تو اندازہ ہو گا کہ پاک وطن کے اہم ترین صوبے کی سادہ لوح عوام پر جانے انجانے میں انہوں نے اور ان کے بڑوں نے کیا مظالم ڈھائے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ گھبرائے ہوئے لوگ اسلام آباد گئے تھے۔ اصل گھبراہٹ وزیر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ اب کرپشن اور مال بنانے کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور جس جس نے لوٹ مار کی ہے اسے حساب دینا ہو گا۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ جن کے نام کے ساتھ رہنما لکھا جاتا ہے انہی لوگوں نے عوام اور ملک کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ مراد علی شاہ کو اپنی اور پیپلز پارٹی کی فکر کرنی چاہیے پارٹی کے اندر موجود گھبراہٹ کی فکر کریں۔ وہ سندھ کی عوام کے مقروض ہیں اس قرض کو اتاریں۔ برسوں سے جھوٹے وعدوں کے ساتھ حکومت میں آتے رہے ہیں نیک نیتی اور خدمت کے جذبے سے کام کیا ہوتا تو آج کراچی میں جانوروں کے کاٹنے سے انسان نہ مر رہے ہوتے۔ بیانات کے بجائے عملی اقدامات کی طرف آئیں اور جس جس پر الزامات یا کیسز ہیں تفتیشی اداروں کو جواب دیں۔ سندھ کارڈ استعمال کرنے کے بجائے عوام کو حقیقت بتائیں۔ روٹی کپڑا اور مکان دینے کے دعوے داروں سے ظلم
کا حساب لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وہ عوامی حکومت بنانا چاہتے ہیں ہماری دعا ہے کہ کاش وہ عوامی حکومت بنے جس میں سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور جاگیر داروں کے نمائندے شامل نہ ہوں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024