بھارت کی ’’راوی‘‘ سے پھر چھیڑ چھاڑ!
ایک دور تھا جب بھارت پاکستان کے حوالے سے کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے سیاسی سطح پر بات چیت کرتا، اور اگر یہاں کی سیاسی قیادت اُسے اجازت دیتی تو وہ کام کرتا ورنہ وہیں اُسے روک دیا جاتا۔ لیکن اب ہم سیاسی طور پر اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ بھارت ہم سے پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتا کہ وہ کسی بھی کام کے لیے جس کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہو وہ کرے یا نہ کرے۔ اس سیاسی کمزوری کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں یا موجودہ یہ عوام بخوبی جانتے ہے لیکن بہرحال زمینی حقائق یہی ہیں کہ ہماری سیاست کہیں نہ کہیں کمزور ضرور ہے۔ جیسے بھارت نے خاموشی سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی ڈیم پراجیکٹ کے رکے ہوئے کام کو دوبارہ شروع کرنے کی منظوری دیدی ہے۔یہ منظوری گزشتہ روز وزیراعظم نریندر مودی کی زیرصدارت یونین کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔دریائے راوی پرشاہ پرکندی ڈیم منصوبے کوابتدائی طور پرنومبر2001میں منظورکیا گیا تھا مگر اب یہ منصوبہ جون 2022 میں مکمل ہوگا جومقبوضہ کشمیر سمیت پنجاب کے علاقوں کو سیراب کریگا۔راوی پر ڈیم سے بھارت مدھو پورہیڈورکس سے پاکستان جانے والے پانی کواستعمال کرسکے گا، اس کی تعمیر پاکستان کا پانی روکنے کی سازش ہے۔اس منصوبے کیلئے بھارت کی مرکزی حکومت پانچ سال میں 38 اعشاریہ 485کروڑ روپے فراہم کرے گی۔
یہ بات تو طے ہے کہ بھارت خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے اور پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف سے دستبردار کرانے کی غرض سے دبائو ڈالنے کے لیے پاکستان کے آبی وسائل پر ڈیم تعمیر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حالانکہ اگر تاریخ کو اوراق کو پلٹیں تو سب سے پہلے آزادی کو ایک سال ہی گزرا تھا کہ 4 مئی 1948کو معاہدہ طے پایا جس کے تحت پانی کی فراہمی کے عوض پاکستان بھارت کو سالانہ ادائیگی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ مہذب بین الاقوامی اقدار و روایات کے مطابق بالائی دریائی ریاست نچلی ریاست کے پانی کی امین ہوتی ہے۔ بھارت ایسی حقیر ریاست سے ان اقدار کی توقعات دیوانے کے خواب کے مترادف تھی۔ لہٰذا 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کے تحت تین مشرقی دریا بھارت جبکہ تین مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے میں عالمی بینک نے ضامن اور ثالث کا کردار ادا کیا۔
گزشتہ نصف صدی میں بھارت کئی بار سندھ طاس معاہدے کے الفاظ اور روح سے انحراف کر چکا ہے۔ ماضی میں بگلیہار ڈیم کا مسئلہ ہو یا حال میں کشن گنگا اور رتلے ڈیم، بھارت نے ہمیشہ پاکستان مخالف جارحانہ سفارتی حکمت عملی کے تحت سندھ طاس معاہدے کو مجروح کیا۔ وہ بارہا عالمی بینک اور عالمی ثالثی اداروں میں لابنگ کے تحت پاکستان کے مفادات اور معاہدے کی روح کے عین خلاف فیصلے حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 2007ء میں بگلیہار ڈیم کا فیصلہ بھارت کے حق میں سنایا گیا۔اس کامیابی کے بعد بھارت بے لگام ہوگیا۔ اس نے دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کردی۔ اس ڈیم کا نقشہ سندھ طاس معاہدے کے سراسر برعکس مخالف تھا لہٰذا پاکستان نے 2010ء میں دی ہیگ میں موجود عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ ڈیم کے دروازوں کی اونچائی سندھ طاس معاہدے کو مجروح کر رہی تھی۔ عالمی ثالثی عدالت نے فوری طور پر کشن گنگا ڈیم پر تعمیراتی کام روکنے کا حکم دے دیا لیکن ڈیم کے ڈیزائن میں معمولی تبدیلی کے بعد، 2013ء میں عالمی ثالثی عدالت کے چیئر مین جج اسٹیفن شویبل نے متنازع فیصلہ بھارت کے حق میں کرتے ہوئے ناصرف ڈیم کی تعمیر کو جائز قرار دیا بلکہ بذریعہ سرنگ پانی کو 24کلو میٹر موڑنے کی اجازت بھی دے دی۔ ڈیم میں بجلی کی پیداوار کے لیے ضروری آبی ذخیرہ بڑھاتے ہوئے جج نے فیصلہ دیا کہ ماحولیاتی بہاؤ کو برقرار رکھنے کیلئے بھارت محض 9 مکعب میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی چھوڑنے کا پابند ہوگا۔ واضح رہے کہ دریائے جہلم کے عمومی بہاؤ کی رفتار 63 مکعب میٹر فی سیکنڈ ہے۔ یہ فیصلہ 2013ء کے عالمی یوم آب کے لیڈنگ آئیڈیا ’’بین الاقوامی تعاون‘‘ کے عین منافی تھا۔جج کا فیصلہ سندھ طاس معاہدے کی پہلی شق کی ذیلی شقوں 11 اور15، پانچویں شق کی ذیلی شق 9 اور ضمیہ C کے مخالف ہونے کے باعث پاکستان اور بھارت کے مابین کشن گنگا ڈیم پر کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔ اس ناکامی کے بعد، ستمبر2013ء کے مستقل سندھ کمیشن میں بھارت نے دریائے چناب پر رتلے ڈیم کی تعمیر کا عندیہ دیا۔ اس منصوبے کا ڈیزائن کشن گنگا ڈیم کی طرح متنازع تھا۔ اس کی اونچائی 133 میٹر ہے جو کشن گنگا ڈیم کی متنازع اونچائی سے 35 میٹر زیادہ ہے۔ پاکستان اور بھارت نے اس منصوبے کیلئے عالمی بینک سے رجوع کیا۔ مسئلے کے حل کیلئے پاکستان نے ثالثی عدالت کا مطالبہ کیا جبکہ بھارت غیر جانبدار تکنیکی ماہر کی خدمات حاصل کرنے پر بضد رہا۔ دونوں ممالک کی جانب سے متنازع منصوبے کے حل کیلئے مختلف طریق کار کی تجویز کے باعث یہ معاملہ عالمی بینک میں تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔
بھارت کی اس جارحیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ستمبر 2016ء میں اڑی میں مبینہ دہشت گرد حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی تعظیم کرنے کے پابند نہیں۔ انٹرویو کے بعد انہیں بتایا گیا کہ معاہدے کی بارہویں شق کی ذیلی شق4 کے تحت بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ مودی سرکار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بھارت میں مبینہ دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ حق خود ارادیت اور آزادی کی درجنوں تحریکیں ہیں۔خطے میں بھارتی آبی جارحیت کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پن بجلی کے منصوبوں کی آڑ میں بھوٹان کے آبی ذخائر پر بھارتی قبضہ ہو یا بنگلہ دیش میں سالانہ سیلابوں کا سلسلہ، بھارت ہمسایہ ممالک کے آبی وسائل کو اپنے مذموم عزائم میں کامیابی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ دریائے جہلم اور چناب پر ڈیموں کی تعمیر کے بعد، بھارت اپنے تئیں پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زرعی فصلوں کو سیلاب کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔اب وہ پاکستان کو مغربی جانب سے بھی ہدف بنا نا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں وہ دریائے کابل پر22ڈیم تعمیر کر رہا ہے تاکہ پاکستان کو دونوں اطراف سے اپنے نان کائی نیٹک ایکشن کا نشانہ بنا سکے۔چین بھارت کی بالائی دریائی ریاست ہے۔ بھارت کی عیاری کو محدود کرنے کیلئے 2016ء میں چین نے بھارت کے دریا براہما پترا کا پانی روک دیا اور اس پر ڈیم کی تعمیر شروع کر دی۔ ان حقائق کے پیش نظر، پاکستان نے بھارتی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے سفارتی سطح پر کام شروع کر دیا۔ آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کیلئے پاکستان نے سی پیک کی چھٹی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی میں پانی کے بحران کو پاک چین اقصادی راہداری کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی۔ اس پیش رفت کا مقصد زرعی و توانائی پیداوار کو مستحکم رکھنے کیلئے پانی کو فراہمی کی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بھارتی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا بھی تھا۔ ورلڈ واٹر سیناریوز کی ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اسماعیل سراج الدین نے کہا تھا کہ موجودہ صدی میں جنگوں کی وجہ آبی وسائل بنیں گے۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کیلئے پاکستان کو اقوام عالم کے سامنے بھارتی عیاری عیاں کرنا ہوگی تاکہ اس کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو سکے۔
اور اب جبکہ بھارت نے خاموشی سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی ڈیم پراجیکٹ کے رکے ہوئے کام کو دوبارہ شروع کردیا ہے تو پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو یہ مسئلہ ہر سطح پر اُٹھانا چاہیے ورنہ منہ زور بھارت کسی سطح پر بھی جا سکتا ہے۔ یقینا پاکستانی قیادت اس حوالے سے باخبر ہوگی ، لیکن اگر سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی کمزور ورلڈ بنک میں کمزور کیس پیش کیا اور ہم عالمی عدالت میں پھر کیس ہا رگئے تو یہ یقینا افسوسناک امر ہوگا۔ ہمارا مستقبل پانی سے ہے اور یہ لوئیر کنٹری کا حق بھی ہے لہٰذابھارت کو اس طرح کے اقدامات کے حوالے سے باز رکھنا اشد ضروری ہے۔