نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
سائیں جی کا پیغام ملا کہ 20 ربیع الاو ل صبح دس بجے تک پہنچ جائیں۔حکم حاکم !دئیے ہوئے وقت سے بھی کچھ دیر پہلے حاضر ہوگیا۔ اس دن سائیں جی کسی ’’ دولہے ‘‘ سے کم نہ لگ رہے تھے۔ گرمجوشی سے معانقہ کیا۔ خوشبواورلباس کی تعریف کی تو کہنے لگے ’ ’ مہینہ ‘‘ کونسا ہے۔ گرما گرم چائے اور بسکٹوں سے تواضع کے بعد جب ڈھیرے سارے لوگ اکٹھے ہو گئے تو گفتگو مولانا جلال الدین رومی اور حضرت شاہ شمس تبریز سے شروع سے شروع ہوئی۔ فرمانے لگے کہ ایک دن مولانا جلال الدین اپنی کچھ نایاب کتب لے کر تالاب کے کنارے شاگردوں کو درس دے رہے تھے ۔ سلسلہٌ کلام اپنے عروج پر تھا اتنی دیر میں کسی طرف سے ایک بابا نمودار ہوئے۔ تدریس کا منظر دیکھ کر بابا جی نے مولانا سے پوچھا ، یہ کیا ہو رہا ہے ؟ جواباً کہا تعلیم دی جا رہی ہے۔ بابا جی نے کہا کہ کیسی تعلیم؟ مولانا بولے یہ تمہارے بس کی بات نہیں ، تم اپنی راہ لو ۔ یہ سن کر بابا جی کو جلال آگیا ۔ کتابیں اٹھائیں اور تالاب میں پھینک دیں ۔ مولانا اور ان کے طالب علم سب سخت غصے میں آگئے کہ یہ تم نے کیا ظلم کردیا یہ تو بہت قیمتی کتابیں تھیں۔ بابے نے تالاب میں ہاتھ ڈال کر وہ ساری کتب نکال باہر رکھیں ۔ کسی بھی کتاب پر پانی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ سب حیران ہوئے ، تب مولانا جلال الدین کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی عام بابا نہیں !انہوں نے معذرت کی ، عزت واحترام سے پاس بٹھایا اور طالب علموں کو ان کی خدمت خاطر کی غرض سے ہدایات دیں ۔ بابا جی نے مولانا کو بتایا کہ تم ابھی تک تعلیم ہی کی باتیں کررہے تھے ، آج ہم تمہیں علم سکھائیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کے بعد مولانا جلال الدین ’’رومی ؒ‘‘ بن گئے ۔پھر رومی بن کر دنیا بھر میں دھوم مچا دی۔ اور بابا ’’ حضرت شاہ شمس تبریز‘‘ کو دل کی گہرائیوں سے اپنا اُستاد بنا لیا ۔ ایک بار حضرت شمس تبریز اپنے حجرہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک پنج وقتی نمازی اور پرہیز گارحاضر ہوا۔ کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ آج رات عشاء کی نماز نہ پڑھنا ۔ وہ شخص واپس تو چلا گیا لیکن مطمئن نہ ہوا ۔ دل میں وسوسے آتے رہے جب عشاء کا وقت ہوا تو سوچا چلو سنتیں ادا نہیں کرتا صرف فرض پڑھ لیتا ہوں۔ رات کو خواب میں رسول خدامصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سنتیں نہ پڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ۔ علی الصبح وہ شخص سخت پریشانی میں حضرت شمس تبریز کے پاس حاضر ہوا اور ساری بات سنا دی ۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے پہلے بھی کبھی عشاء کی نماز میں سنتیں چھوڑیں ۔ تو وہ شخص بولا ، کئی بار۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے قبل بھی رسول خداؐ تمہاری خواب میں آئے تو وہ کہنے لگا جی نہیں۔ حضرت نے ارشاد فرمایا ہم نے تمہیںنماز نہ پڑھنے کا کہا تھا۔ رب عزت کی قسم آج تمہاری دلی تمنا پوری ہو جاتی ۔
مہمانوں کے لیے چائے پانی کا پوچھ کر سائیں جی کہنے لگے کہ اس واقعہ کی زمانہ کے حوالے سے تو تصدیق نہیں ہو سکی تاہم زیادہ محققین کے مطابق یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے ۔ ایک بار دو میاں بیوی حضرت موسیٰ کے پاس حاضر ہوئے اور اپنی کسمپرسی کا بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کوہ طور پر جاتے ہیں۔ ا پنے رب سے ہماری آنے والی زندگی اور حالات بار سے برائہ کرم پوچھ کر آئیں۔ حضرت موسیٰ نے وعدہ کرلیا ۔ کوہ طور گئے ۔ رب تعالیٰ سے ان دونوں میاں بیوی بارے پوچھا تو جواب ملا ان کی باقی ماندہ زندگی 80 برس ہے جس میں چالیس برس غریبی کے اور 40 برس امیری کے ہونگے۔ یہ میں انہیں اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو عرصہ پہلے مانگنا چاہیں وہ مل جائے گا۔حصرت موسیٰ نے واپسی پر انہیں آگاہ کردیا اور ساتھ ہی اختیار کا بتا دیا ۔ میاں نے کہا کہ بیوی سے پوچھ کر بتائوں گا۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ پہلے امارت مانگ لیتے ہیں ۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے پہلے امارت کے 40 سال بخش دئیے جب پہلا دن کا سورج طلوع ہوا تو حسب معمول خاتون نے کھانا پکانے کے لئے ہنڈیا چولہے پر چڑھائی تو خاوند اس کے پاس آیا اور کہا کہ آج ہنڈیااُتار دو۔ گھر میں جو سب سے بڑا برتن ( دیگ کی طرز کا ) ہے وہ چولہے پر چڑھائو ا ور کوئی بہتر سی چیز پکائو ۔ بیوی نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیوں ؟ کہنے لگا جب رب تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا کہ یہ چالیس سال ہم بھوکے نہیں رہیں گے اور خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی تو کیوں نہ ہم اپنے دستر خوان کو وسیع کردیں ۔ تم اللہ کا نام لے کر کھانا پکائو میں شہر بھر کے غریب ، بھوکے ، لاچار اور مسافر سب اکٹھے کر لاتا ہوں تاکہ ہم سب مل کر کھانا کھائیں ۔ ایسا ہی ہوا اور پھر گویا یہ ان کی زندگی کا معمول بن گیا ۔ صبح سے رات تک ان کا لنگر وسیع رہتا۔ چند دنوں بعد حضرت موسیٰ ؑ کا کوہ طور پر جانا ہوا۔ تو رب تعالیٰ نے ان میاں بیوی کے لئے یہ پیغام بھجوایا کہ ان کی غربت کے چالیس سال ہم نے ختم کرکے امارت میں بدل دئیے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حیرانگی سے پوچھا وہ کیوں ؟ رب تعالیٰ فرمانے لگے کہ انہوں نے اپنے رزق میں میری مخلوق کو بھی شامل کرلیا ہے اب ان کا رزق ختم نہیں ہو سکتا۔
سائیں جی نے لنگر لگانے کا حکم دیتے ہوئے پہلو بدلا اور اہل بیت کی شان بیان کرنا شروع کی ۔ فرمانے لگے کہ ہمارے پیارے حبیب ؐ نے فرمایا کہ جس نے میرے اہل بیت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے میرے اہل بیت کے ساتھ بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا ۔ اس پر انہوں نے ایک قصہ سنانا شروع کیا کہ ہرات سے ثمر قند ایک سید زادی دو بیٹیوں کے ہمراہ روانہ ہوئی ۔ منزل مقصود پر پہنچ کر سید زادی نے معلوم کیا کہ یہاں کوئی رئیس شخص رہتا ہے تو لوگوں نے بتایا کہا ایک مسلم رئیس ہے اور فلاں جانب اس کا گھر ہے اور دوسری طرف ایک آتش پرست امیر بندہ رہتا ہے ۔ وہ خاتون مسلمان رئیس کے گھر چلی گئیں اور بتایا میں سید زادی ہوں۔ ایک طویل سفر کرکے یہاں پہنچی ہوں ۔ رہائش ہے اور نہ کھانے کا بندوست ۔ تمہارا سنا تو تمہارے پاس چلی آئی۔ رئیس بولا کہ تمہارے پاس سید ہونے کا کوئی ثبوت ہے ۔ پریشان حال بولی کہ اس وفت ثبوت کہاں سے لائوں۔ وہ بولا بغیر ثبوت میں کیسے یقین کرلو۔ خاتون مجبور ہو کر وہاں سے نکلی اور آتش پرست کے ہاں چلی گئی ۔ یہی بات اسے بتائی ، اس نے فوراً ملازم کو بلایا اور سب سے بہترین کمرہ اس خاتون کو دینے کا کہا۔ خصوصی بستر اور کھانے کی تلقین کی اور کہا کہ جب تک یہ رہنا چاہے اسے اسی شان اور عزت سے رکھا جائے کہ یہ ہمارے ، ہمارے جیسے گناہ گار شخص آخری نبی ؐ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی مہمان آئی ہیں ۔ جب رات ہوئی تو مسلمان رئیس زادہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک عالیشان محل کے باہر کھڑا ہے جب اندر داخل ہونے لگا تو اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا تعارف؟ ۔ اس نے تفصیل بتائی تو کہا گیا کہ کوئی ثبوت ! وہ بہت شرمندہ ہوا مگر وقت گزر چکا تھا۔ اگلے ہی دن وہ معلومات حاصل کرکے آتش پرست کے گھر پہنچا اور کہا کہ براہ کرم یہ مہمان میرے حوالے کردو ۔ اس نے انکار کیا تو 300 درھم کی آفر کی ۔ آتش پرست نے کہا کہ رات جب تم ثبوت نہ فراہم کر سکے تو اس وقت مجھ پر کرم ہو گیا اور ایک ہی نگاہ سے میری کایا پلٹ گئی اوراس محل کی چابیاں مجھے دے دی گئیں ۔ سائیں جی نے حاضرین کو دعا کی درخواست کی ، رب تعالیٰ ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے ، آمین ۔ ثم آمین ۔