یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ ہر انسان کو اسی دنیا میں بھگت کر جانا ہے۔ صاحب اقتدار صاحب حیثیت پاورفل مالدار لوگوں کی سوچ رویے میل ملاپ اٹھنا بیٹھنا طرز زندگی ایک عام انسان کی پہنچ سے بہت دور ہوتی ہیں لیکن جب وہ زمین پر آن گرتے ہیں تو ان کی گرفت اور انجام سے ایک عام انسان ڈر جاتا ہے۔ اس روز اسے سمجھ آتی ہے کہ یہ شان و شوکت مال و دولت اقتدار طاقت پانی کا بلبلہ سے زیادہ کچھ نہیں ؟ در حقیقت سب سے قابل رحم انسان وہ ہے جس کے ہاتھ میں کوئی پاور یا عہدہ ہے۔ لوگ اس کو عارضی سلیوٹ مارتے ہیں۔ اس کے حکم اور جلال سے کانپتے ہیں لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہی سلیوٹ والی بندوق اس طاقتور کی گردن پر تان کر ایک کمزور اہلکار بھی کہہ سکتا ہے کہ چلو آگے لگو۔۔۔ عروج سے زوال، عزت سے ذلت، شہرت سے بدنامی تک کا سفر عبرتناک ہوتا ہے۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ طاقتور لوگوں کی خوشامد میں ٹی وی شوز کئے جاتے ہیں۔ کالم لکھے جاتے ہیں۔ اس کو رشوت اور خوشامد کہا جاتا ہے تا کہ ان پاورفل لوگوں سے کام لیا جا سکے اور کچھ نہیں تو ان لوگوں سے مصافحہ بھی بڑی بات سمجھی جاتی ہے۔ پاور فل طبقے کے خلاف لکھنا بولنا حماقت سمجھا جاتا ہے۔ حکمرانوں کے خلاف کوئی مہنگا صحافی بول لکھ رہا ہے تو الا ماشا اللہ وہ کسی کی خوشامد پر یہ جرات رکھتا ہے۔ اس جرات اور خوشامد کے عوض اسے تسلی بخش تھپکی دی جاتی ہے۔ بلا معاوضہ اور بلا مفاد حکومتوں کی مخالفت کوئی نامور صحافی کیوں کرے گا ؟ نامور بنایا جاتا ہے اور اگر راستہ تبدیل کرنے کا سوچے تو اس کو بدنام کر دیا جاتا ہے۔ پہلی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کی بھی ایک خوشامدی ٹیم ہے۔ ان کی آمدن کسی کے آنے جانے سے متاثر نہیں ہوتی کہ مستقل روزگار لگا ہوا ہے۔ میڈیا اس وقت زوال پذیر ہے البتہ مستقل اور منتخب لوگوں کی جابز متاثر نہیں ہوتیں۔ یہ طبقہ
کبھی بے نظیر بھٹو کی چمچہ گیری پر فائز تھا پھر نواز شریف نے خرید لیا۔ ان پر آنچ نہیں آ سکتی۔ ہر عروج اور شہرت کو زوال ہے۔ جو بابے قبروں میں جا سوئے ان کے نام بھی یاد نہیں اور جو آج بابے بن چکے ہیں انہیں کل کون یاد رکھے گا؟ ایک گندی گالی نکال کر کہہ دیا جائے گا کہ ’’بکا ہوا تھا‘‘ ۔۔۔ حکم کے غلام ہیں۔ یہی حال مذہبی پیشواؤں کا ہے۔ جب مقصد ہوا ان کی گڈی چڑھا دی اور جب ضرورت ختم ہوئی تو انہیں بدنامی کی کال کوٹھری میں بند کر دیا۔ یہ ڈرامے ایک عام انسان ایک عام شہری کی سمجھ سے بالا تھے لیکن اب ایک عام انسان ایک عام شہری بھی ان ڈراموں اور سازشوں کو سمجھنے لگا ہے۔ لیکن جو بات ایک عام انسان بھی نہ سمجھ سکا وہ مکافات عمل کی پکڑ ہے۔ جعلی سچ بولنے والے میڈیا پرسنز کی گرفت سب سے شدید ہے کہ عوام کی سوچ بدلنے اور رائے بنانے کی حساس جاب پر فائز ہیں۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی جرمن نازی فاشسٹ حکومت کے پروپیگنڈہ وزیر جوزف گوئبلز نے جھوٹ و فریب پر مبنی فلاسفی یعنی جھوٹ کو اتنے تواتر سے بولو کہ اِس پر سچ کا گمان ہو جائے میں اِس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ جرمن عوام کو اتحادی فوجوں کے جرمنی میں داخل ہونے تک یہی محسوس ہوتا رہا کہ نازی جرمنی کی فوجیں پورے یورپ اور روس پر قابض ہوچکی ہیں۔ زرداری اور شریف برادران کی جتنی مٹی پلید ہو جائے سب خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں اور عام انسان بھی کہہ دیتا ہے کہ مکافات عمل ہے لیکن عمران خان کے آنے والے کل کا سوچ کر ترس آتا ہے کہ اس صادق و امین کے کردار میں فقط ایک ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ ہی تو ہے اور برا وقت بتا کر نہیں آتا۔ ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار صادق و امین پاک صاف ٹیم کا کیا بنے گا؟ عام انسان ایک عام شہری ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور ’’مکافات عمل‘‘ کا عروج و زوال دیکھنے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھے۔ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار مدینہ والے کا ارشاد مبارک سمجھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ ہلاک کرنے کے مترادف ہے‘‘۔۔۔ اور مفاد پرستوں کو علم ہے کہ خوشامد وہ ہتھیار ہے جو انہیں بنی گالہ کے ٹیرس سے وزیراعظم ہائوس تک لے جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے خوشامد اور خوش فہمی کے معاملہ میں حکمران بھائی بھائی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024