ہم کہاں کھڑے ہیں
بات خلائی مخلوق اور لاڈلے سے چلی تھی اور یہاں تک آن پہنچی کہ فوج کس پارٹی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔
میں تو نہیں جانتا کہ فوج کس پارٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ طاقتور ادارہ ہے۔وہ جو بھی فیصلہ کرے، کوئی بھی اس کا یہ فیصلہ تبدیل نہیں کروا سکتا ، فوج کواپنے مفاد کا بہتر علم ہے ۔لیکن فوج کسی خاص پارٹی کی حکومت کامیاب کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ اس کے لئے متعلقہ سیاسی پارٹی کی اپنی لیاقت ، صلاحیت اور تجربہ ہی کار گر ہو سکتا ہے۔
مگر جب وزیراعظم ملکی میڈیا کے ایک بہت بڑے پینل کے سامنے یہ دعویٰ کریں کہ فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے تو پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر اسے زبان کی پھسلن قرارنہیں دے سکتا اور نہ فوج کے ترجمان کے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ وزیراعظم کے بیان کو سیاق و سباق سے باہر نہیں دیکھنا چاہئے۔میری جچی تلی رائے یہ ہے کہ قوم جس پارٹی کے منشور پر اسے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیتی ہے،فوج باقی ریاستی اداروں کی طرح اس منشور کے ساتھ کھڑی ہونی چاہئے۔
وزیراعظم کے دعوے پر البتہ قومی سطح پر ایک بحث چھڑ گئی ہے ۔پیپلز پارٹی کے لیڈر قمر الزماں کائرہ نے وزیراعظم کے بیان کوہدف تنقید بنایا ۔اب جو فوج کا جواب سامنے آیا ہے، اس میں تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ وہ حکومت کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہے تو ہر کوئی اس جواب کی ستائش کرتا، لیکن سیاق و سباق والی دلیل کو شاید ہی کوئی ذہن قبول کرے کیونکہ وزیراعظم کا دعویٰ غیر مبہم،اپنی جگہ پر مکمل ہے اور اسے سمجھنے کے لئے کسی سیاق و سباق کی ضرورت ہی نہیں۔
میرے خیال میں تدبر اور مصلحت کا راستہ یہ تھاکہ فوج اس بحث میں نہ پڑتی اور پس منظر میںرہ کر وزیراعظم کو قائل کرتی کہ وہ خود ہی اس بیان کی تشریح کریں، وزیراعظم مصلحت کی خاطر یو ٹرن کو درست سمجھتے ہیں تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ان کے دعوے کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ فوج اس کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ایک سیاست دان کے طور پر وزیراعظم کو اپنا بیان واپس لینے اورا سکی کسی بھی تاویل یا تعبیر کا حق حاصل ہے۔
نواز شریف نے تو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سے بھی استثنیٰ کا حق مانگ لیا ہے جو قانون کے تحت انہیں ملنا چاہئے مگر عدالت بھی جو چاہے فیصلہ کرے کیونکہ استثنیٰ کے حق کی تشریح عدالت کے دائرہ کار میں ہے۔عدالتیں تو فوجی آمروں کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت سند جواز دیتی رہی ہیں۔
اصولی طور پر فوج ایک خود مختار ادارہ ہے اور دفاعی حکمت عملی طے کرنے کااسے مکمل اختیار حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تاریخ یہ ثابت کرے کہ یہ حکمت عملی ملک کی سلامتی کے لئے سود مند تھی یا نقصان دہ تھی جیسا کہ جنرل یحییٰ خاں کے مشرقی پاکستان میں آپریشن سے ملک دو لخت ہوا مگر جس روز یہ آپریشن شروع ہوا تو بھٹو نے ڈھاکہ سے کراچی پہنچ کر کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے کئی اور اسباب بھی موجود تھے۔ بلوچستان میں فوجی آپریشنوں پر بھی اعتراضات کرنے والے موجود ہیں ۔ اکبر بگتی کے خلاف ا ٓپریشن کو کو ئی ذی ہوش سند جواز دینے کو تیار نہیں ۔فوج نے دہشت گردی کے انسداد کے لئے جو جنگ لڑی، اسے موجودہ وزیر اعظم جی ایچ کیو میں کھڑے ہو کر غیروں کی جنگ قرار دے چکے ہیں اور کئی برسوں سے وہ اس جنگ کو امریکی جنگ کہتے رہے ہیں ،ڈرون حملوں کے خلاف انہوںنے جلوس نکالے۔ وزیراعظم کی ا س پالیسی کو درست نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ وہ ایک آزاد شہری ہیں اور آئین انہیں اختلاف رائے کا حق دیتا ہے۔ امریکہ میں بھی کروڑوں لوگ امریکی جنگی حکمت عملی سے ا ختلاف کرتے ہیں۔ نام چومسکی اس کی ایک مثال ہیں۔ عمران خان اگر دہشت گردی کی جنگ پر الگ موقف رکھتے ہیں تو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ باقی پوری قوم نے ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی حمائت کی۔ عمران خان بھی اپنا طویل دھرنا چھوڑ کر قومی موقف کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے۔ کراچی کے آپریشن کے مثبت نتائج پر دنیا انگشت بدنداں ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج نے جو قربانیاں دیں اور مکمل کامیابی حاصل کی، اس کی تعریف و تحسین اور ستائش، دوست دشمن ہر کوئی کرنے پر مجبور ہے اور افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج اپنی ناکامی پر منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔بھارت نے پینسٹھ میں کشمیر تنازع کو بہانہ بنا کر پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کی تو قوم ایک فوجی ڈکٹیٹر کی دس منٹ کی تقریر سن کر جھوم اٹھی اور اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ اسی کامل اتحاد کی وجہ سے بھارت کو ذلت آمیز شکست کھانا پڑی۔تو اصول یہ طے ہوا کہ ایسی دفاعی پالیسی جس پر قوم کا اتفاق رائے ہو، وہ پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اور فوج کا مینڈیٹ بھی یہی ہے کہ وہ اس طرح کی دفاعی پالیسی تشکیل دے ا ور قوم کو اس پر متحد رکھنے کی کوشش کرے۔جہاں تک سیاست کا تعلق ہے ، تو فوج کواس سے لا تعلق اور دور دور رہنا چاہئے۔ آئین میں اندرونی سیکورٹی کی شق فوج کو سیاست کے امور طے کرنے کا حق تفویض نہیں کرتی۔جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی براہ راست مداخلت آئین سے تجاوز تھی اور دیگر کئی جرنیلوںنے پس پردہ رہ کر حکومت کی طنابیں کنٹرول کرنے کی بھی اگر کوئی کوشش کی، تو آئین اس کی بھی اجازت دینے سے قاصر ہے۔
فوج کے ترجمان سیاسی سوالات کے جواب دینے کے بکھیڑے میں نہ ہی پڑیں تو یہ فوج کے ادارے کے لئے سود مند ہو گاا ور ملک کے لئے بھی۔ میڈیا کو اگلے چھ ماہ کیا ا یجنڈہ اپنانا چاہئے، اس کی اپیل بھی حکومت وقت کی طرف سے آنی چاہئے تھی ورنہ یہ سوال تو لازمی پوچھا جائے گا کہ اگلے چھ ماہ کے لئے کوئی تلقین حکومت کو بھی کریں کہ وہ کوئی بہتر کارکردگی دکھائے۔ تبھی میڈیا کوئی اچھا امیج پیش کر سکے گا،ڈالر مہنگا ہو جائے،یوٹیلٹی بل غریبوں کی استطاعت سے باہر ہو جائیں، اشیائے خورو نوش کی مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگ جا ئے تو میڈیا کیسے اچھی تصویر پیش کر سکے گا۔ میڈیا تو ایک آیئنے کا کام دے سکتا ہے۔ میڈیا بیوٹی پارلر کا کام تو نہیں کر سکتا۔
آج کے حالات میں فوج سے کوئی بحث مباحثہ کسی کوزیب نہیں دیتا۔ جو فوج چودہ برس سے گھروں میں نہیں گئی جس نے دس ہزار افسروںاور جوانو ں کی شہادت پیش کی ہے اور جس نے سیاست دانوں کی غلطیوں پر غلطیوں کا جائزیا ناجائز فائدہ اٹھانے کی قطعی کوشش نہیں کی، ایسا سیاسی ، معاشی اور مالی انتشار اور غدر امریکہ میں بھی مچ جائے تو شاید ہی پینٹاگان صبر کا مظاہرہ کر سکے۔ میں پاک فوج کے تحمل، بردباری اور مصلحت پسندی کی دا دیئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر اسے سیاستدانوں کی باتوں کا جواب دینے کے بکھیڑے سے دور رہنا چاہئے۔ حکومت جانے ا ور سیاست دان جانیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل سکیں یا اپنی حکومت ہی نہ چلا سکیں تو نئے الیکشن کرالیں ،قوم کو نئے مینڈیٹ کا موقع اور حق دیں،یہی آئینی راستہ ہے۔
فوجی ترجمان نے کچھ کمنٹری ملکی صورتحال پر بھی کی اور یہ کہا کہ ہم ایک ایسے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں سے ترقی کی راہیں بھی کھلتی ہیں۔ اور زوال کی بھی۔ جس ملک کے قیام کے ساتھ پیدا ہونے والے اکہتر برس کے ہو گئے ہیں اور جہاں سو سال سے زائد عمر کے بزرگ بھی ہیں ، وہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں بلکہ نیا پیدا ہونےوالا بچہ کان میں اذان کی آواز بعد میں سنتا ہے ا ور اسکے کانوں میں یہ شور محشر پہلے گونجتا ہے کہ سب چور ہیں،ڈاکو ہیں، کرپٹ ہیں، سب جیلوں میں جائیں گے تو یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ہمارا کیا حشر ہونےو الا ہے۔بس دعا یہ کرنی چاہئے کہ خدا کسی گوربا چوف سے بچائے۔