آرمی چیف کا آئین کی بالادستی اور ترجمان پاک فوج کا میڈیا سے پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کا تقاضہ
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنا رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں آئین پاکستان اور قانون کی بالادستی ہو۔ یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے اور نہ کوئی ادارہ ریاست سے بالاتر ہے۔ آرمی چیف کا یہ بیان گذشتہ روز ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی میڈیا بریفنگ کے دوران پڑھ کر سنایا جس میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم باہم مل کر امن کی صورتحال بہتر کر رہے ہیں اور ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی حکمرانی ہو۔ آرمی چیف نے اپنے بیان میں اس امر پر زور دیا کہ سب مل کر اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو وہاں لے کر جائیں جہاں ہمارا حق بنتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا بریفنگ کے دوران اس امر کا اظہار بھی کیا کہ افواج کسی شخص، پارٹی یا گروہ کی نہیں پورے ملک کی فوج اور حکومت کا حصہ ہے۔ ان کے بقول حکومت کو فوج نہیں بلکہ عوام اعتماد دیتے ہیں جس روز عوام کا بھروسہ ختم ہوا، نئی حکومت آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی نازک وقت نہیں۔ پاکستان اب ایسے مقام پر آگیا ہے جس سے آگے بہت اچھا یا بہت خراب وقت آئے گا۔ فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہو گئی ہے۔ ان کے بقول میڈیا صرف چھ ماہ پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرے تو حالات بدل جائیں گے۔ پریس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال و جواب انہوں نے آف دی ریکارڈ رکھے تاہم ہر سوال کا کھل کر جواب دیا اور فوج کے مؤقف کی وضاحت کی۔
وزیراعظم عمران خان کی اس بات پر کہ فوج حکمران جماعت کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم کا یہ انٹرویو تین بار دیکھا ہے، اس میں موجود ایک جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے ہر کوئی اس کی من پسند تشریح کر رہا ہے لیکن اس جملے کو باقی گفتگو کے سیاق و سباق سے ملا کر سنا جائے تو ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے بقول فوج نے کسی بھی موقع پر کسی بھی حکومت کے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ ہمیں ہر پارٹی کی حکومت قبول ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت کو اپنی رائے دیتی ہے۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے پاکستان کو سیکولر ہونے کے مشورے کا مسکت جواب دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ بھارت پہلے خود کو سیکولر ریاست بن کر دکھائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس لئے بھارت کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں کون سا ملک بننا چاہئے۔ ہم مسلمان ہیں، بھارت پاکستان کو ایسے ہی قبول کرے۔ بھارت اگر جارحیت کرے گا اور جنگ کرنے آئے گا تو ہم دیکھ لیں گے۔ کرتارپور راہداری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ راہداری یکطرفہ ہو گی جو بھارتی زائرین کے لئے ہو گی۔ تحریک لبیک کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک نے ریاست کے خلاف بات کی۔ اب وہ ریاست کی حراست میں ہے اس کے گرفتار شدگان کے خلاف ریاستی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امور حکومت و مملکت کی انجام دہی اور آئینی اداروں کے فرائض کی ادائیگی میں ریاست ہی مقدم ہوتی ہے اور ملک کا نظام ریاست ہی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے جسے مروجہ قوانین اور آئین کے تقاضوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ اگر تمام ریاستی ادارے آئین میں ودیعت کئے گئے اپنے اختیارات اور دائرہ کار میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو ملک میں امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کے بارے میں کسی قسم کا ابہام پیدا ہو سکتا ہے نہ کسی کوتاہی یا سرکشی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب تک ہمارے سسٹم میں ماورائے آئین و قانون ادارہ جاتی سوچ پروان چڑھتی رہی ہے، جس سے ریاستی اداروں میں باہم سرد مہری اور ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہوتی رہی اور اس سے حکومتی گورننس کے خراب ہونے کے باعث عوام میں پورے سسٹم کے ساتھ بداعتمادی کی فضا پیدا ہوتی رہی، نتیجتاً حکومتی مشینری عضو معطل نظر آتی رہی اور عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے گئے جس کے لئے حکمران یہ عذر پیش کر کے اپنا پلو بچانے کی کوشش کرتے کہ ہمیں تو کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ جبکہ حکومت کے مخالفین کی جانب سے حکمرانوں کو بری حکمرانی، اختیارات کے ناجائز استعمال، قومی دولت و وسائل کے ناجائز استعمال، من مانیوں اور اقرباء پروری کے الزامات کے تحت مطعون کیا جاتا رہا۔ اس طرح قومی سیاست میں محاذ آرائی ،افراتفری اور قیاس کی کیفیت مستحکم ہوتی رہی اور پھر قومی سیاست و معیشت پر حاوی ہونے والے حالات ماورائے آئین اقتدار کی سوچ کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے رہے ہیں جو جمہوریت کی بساط اٹھانے پر منتج ہوتے تو ایسے حالات کی نوبت لانے والے سیاستدانوں کو دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی مجبوری لاحق ہوجاتی۔ اس وطن عزیز کی 71 سالہ تاریخ میں ہمیں بار بار ایسے سانحات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو آئین و قانون کی پامالی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی سے محرومی اور جمہوریت کا گلا گھونٹ کر اسے راندۂ درگاہ بنانے کے قوم کو کچوکے لگاتے رہے۔ جبکہ زیادہ بدقسمتی کی یہ بات ہے کہ ملک، معاشرت اور سسٹم کو اس نہج تک لانے میں جمہوریت کی بقا و تحفظ کے دعوے داران ہی بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پھر اس میں یہ المیہ بھی شامل ہو گیا کہ سلطانی جمہور کے داعی ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کبھی سبق بھی حاصل نہیں کیا اور جمہوریت کی بحالی اور پھر جمہوریت کی عملداری کے دوران بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے جس میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کے مواقع ہی پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت تو ایسی صورتحال کی بد ترین مثال بنا رہا ہے جس میں حکومت ریاستی اداروں بشمول فوج اور عدلیہ کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ تصادم کی راہ پر چلتی نظر آتی رہی۔ اس سے سلطانی جمہور کے ثمرات عوام تک پہنچ سکے نہ ملک اور قوم کا مقدرسنور سکا، قوم کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے انبار انتہا درجے کو پہنچے مسائل سے نجات مل سکی نہ اندھیرے دور ہو سکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکمران طبقات قومی دولت کی لوٹ مار، کرپشن اور من مانیوں کے کلچر میں بھی لتھڑے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ حالات تھے جن میں عمران خاں اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کی عوام میں پذیرائی کی راہ ہموار ہوئی اور ان کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے نے بالخصوص معاشرے کے محروم طبقات کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ نتیجتاً جولائی 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو عوام کی جانب سے مرکز اور صوبوں میں حکمرانی کا مینڈیٹ مل گیا اور پھر مثبت اور خوش آئند صورتحال قومی ریاستی اداروں کے باہم تال میل اور امور حکومت و مملکت باہمی مشاورت سے چلانے کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ ایسی صورتحال کسی قوم اور ملک کے لئے بلاشبہ مثالی صورتحال اور خوش بختی کی علامت ہوتی ہے، چنانچہ قومی سطح پر اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے نظر بھی آ رہے ہیں جبکہ قومی خارجہ معاملات کی سمت بھی درست ہو رہی ہے جس میں قومی سلامتی و خود مختاری کو پیش نظر رکھ کر قومی پالیسیوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ آج ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو بھی اس کے حکومتی اور عسکری قائدین کی ہر گیڈر بھبھکی اور رعونت کا ہماری سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے خیالات کی ہم آہنگی والا مسکت اور فوری جواب مل رہا ہے جس سے ملک کی سلامتی و خود مختاری کے تحفظ کے لئے سول اور عسکری قیادتوں اور قوم کا ایک صفحہ پر متحد ہونے کا تقاضہ بھی پورا ہو رہا ہے اور قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بھی اجتماعی کوششیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔ یہی ملک کا وہ مثبت تشخص ہے جسے کم از کم چھ ماہ تک اجاگر کرنے کا ترجمان پاک فوج نے قومی میڈیا سے تقاضہ کیا ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ قومی میڈیا کو ملکی اور قومی مفادات کی پاسداری کے تناظر میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بخوبی احساس و ادراک ہے اور میڈیا کی جانب سے بالعموم اپنی ذمہ داریاں ملکی ترقی و سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہی نبھائی جاتی ہیں۔ اگر میڈیا کی جانب سے حکومتی گورننس میں کسی خرابی اور ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کی نشاندھی کی جاتی ہے تو ایسا سسٹم میں موجود خرابیاں دور کرنے کے لئے متعلقین کو متوجہ کرنے کی خاطر ہی کیا جاتا ہے تاکہ اصلاح احوال کے فوری اور مثبت اقدامات اٹھائے جائیں اور اپنے مسائل کے حل کے معاملہ میں عوام کی شکایات کا ازالہ ہو سکے۔ بلاشبہ میڈیا کا یہ کردار سلطانی جمہور کو تقویت پہنچانے اور آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری میں حکومتی، ریاستی رٹ مضبوط بنانے کا باعث بنتا ہے۔ ترجمان پاک فوج کو نامعلوم کیوں میڈیا کے اس کردار کی بحسن و خوبی ادائیگی پر شک و شبہ ہوا کہ انہیں میڈیا کو ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کا ایسا مشورہ دینا پڑا جو بادی النظر میں آئین میں ودیعت کی گئی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ جب پاک فوج کے سربراہ خود ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے خواہش مند ہیں تو پھر اظہار رائے کی آزادی سمیت میڈیا کے آزاد ہونے کی آئین میں دی گئی ضمانت کی بھی آئین کی روح کے مطابق پاسداری ہونی چاہئے اور ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے جو میڈیا کی آزادی سلب کرنے کا اشارہ دیتا ہو۔ قومی میڈیا کی بھی بلاشبہ ایک اہم ریاستی ستون کی حیثیت ہے اس لئے وہ ایسی کسی سوچ کو تقویت پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس سے ریاست کے استحکام اور سلامتی پر کوئی حرف آتا ہو۔ میڈیا آج ویسے ہی سخت ترین مالی بحران کا شکار ہے جس میں میڈیا کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ اگر اس پر ریاست کے کسی دوسرے ستون کی جانب سے بداعتمادی اور کسی قسم کی بدگمانی کا اظہار ہونے لگے تو اس سے میڈیا کی بقاء بھی مشکل ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ آج ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا اجاگر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم باہمی اعتماد اور قومی اتحاد و یکجہتی سے ہی ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے عہدہ براء ہو سکتے ہیں۔ خدا اس کے لئے ہمیں ہمت اور استقامت عطاء فرمائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024