چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے کہہ دیا تھا کہ فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ایسے موقع بھی آئے جب سابق صدر آصف علی زرداری کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینا پڑی اور میاں نواز شریف کو تو ویسے ہی آرمی چیف سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور سیاسی و عسکری قیادت کے مابین اختلافات کے منفی اثرات وطن عزیز پر پڑ رہے تھے، قوم کو تو اس کا تجربہ ہی نہیں تھا یہ تو اب علم میں آیا کہ سیاسی، عسکری اور جوڈیشل قیادت متحد ہو تو وطن عزیز پر کیسے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کہ وزیراعظم کہیں دورے پر جائیں تو آرمی چیف ساتھ ساتھ ہوتے ہیں مقصد دوسرے ملکوں کو یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت متحد ہے اور اس اتحاد کو دیکھ کر دیگر ممالک بہت زیادہ مہربان ہوتے ہیں اب یہی دیکھ لیں کہ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کی ہرزہ سرائی پر منہ بند کردیا اور سخت جواب دیا ٹرمپ کو معلوم ہے کہ فوج وزیراعظم کے پیچھے کھڑی ہے لہٰذا وہ فوری طور پر دب گئے اور عمران خان کو ایک محبت نامہ بھجوادیا۔
بہرحال وزیراعظم کی جانب سے فوج کی حمایت حاصل ہونے کے بیان پر وطن عزیز میں بہت لے دے ہورہی تھی سیاسی شطرنج کے مختلف مہرے طرح طرح کی باتیں کررہے تھے، پیپلز پارٹی کے سیاسی چوب دار یہی ندا دے رہے تھے کہ فوج تو حکومت کے کاموں کے ساتھ ہوتی ہے منشور سے فوج کا کوئی تعلق نہیں اور اگر ایسا ہے تو یہ بہت خطرناک بات ہے فوج کو اس پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے، جبکہ سیاسی میدان کے دیگر کھلاڑی بھی کچھ ایسے ہی انداز میں باتیں کررہے تھے بس صرف میاں نواز شریف نہایت خاموشی اور شرافت سے زندگی گزار رہے ہیں، اور گذشتہ روز فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے فوج کا مؤقف قوم کے سامنے رکھ دیا اور یہ بھی بتادیا کہ فوج کیا کیا کچھ جانتی ہے اور اس پر کیا اقدامات کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے، پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ میڈیا 6ماہ صرف ترقی دکھائے ، آگے وقت بہت اچھا یا بہت خراب ہے، آج پرانی فوج نہیں، ایک ایک اینٹ لگا کر پاکستان دوبارہ بنارہے ہیں، چند سال میں بہتری آئی، گرتی معیشت پائوں پر کھڑی ہوگئی، ترقیاتی اور اچھے کام بھی ہورہے ہیں ہم اس کو کیوں پلٹنا چاہتے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس سوال کا تعلق اپوزیشن سے ہے جو حکومت کو کام کرنے دینے کے بجائے مختلف نوعیت کے بے بنیاد الزامات لے کر میدان میں آرہی ہے حالانکہ ماضی میں کبھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ اپوزیشن نے کسی منتخب حکومت کو ابتدائی ایام میں ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہو لیکن چونکہ وزیراعظم عمران خان کا بنیادی منشور کرپشن کے خلاف کارروائی اور کرپشن کرنے والوں کو پس دیوار زنداں پھینکنے کا عزم ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حمام میں الف سے یے تک سب عریاں ہیں، اکثریت کا دامن آلودہ ہے چند ہیں جو اللہ والے ہیں اور اللہ والے ہمیشہ سے ہی چند رہے ہیں، لیکن یہ بھی اسلامی تاریخ سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ چند ہی باقی تمام پر بھاری پڑتے ہیں وہ خواہ لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہوں۔
میجر جنرل آصف غفور نے واضح کردیا کہ آنے والے وقت میں ہم یا تو خوش حالی کے دور میں جائیں گے یا پھر…… (ہمارے منہ میں خاک ہم وہ لفظ ادا نہیں کرسکتے)۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی دیانت داری روز روشن کی طرح عیاں ہے، اندرون و بیرون ملک ہر کوئی ان کی دیانت داری کا گرویدہ ہے، جب قیادت دیانت دار ہو اور دنیا بھی اس کو دیانت دار گردانتی ہو تو اس ملک کا مقدر سنور جاتا ہے، ہر چہار جانب سے وہاں سرمایہ کاری آتی ہے، لوگ کسب معاش کے لئے بھی آتے ہیں، یہ باتیں وزیراعظم عمران خان کی اختراع نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کو رد کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں بلکہ اپوزیشن کو اتنا کرنا ہوگا کہ وہ حکومت کو کام کرنے دے جب حکومتی منصوبے سامنے آئیں تو پھر ان کا دیانت داری سے تجزیہ کرکے بات کرے ان کی تعریف کرے یا اعتراض کرے۔
بہرحال دیگر تمام اہم امور کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارت کے احمق آرمی چیف بپن راوت کو بھی ستھرا جواب دیا کہ بھارت کہاں سے سیکولر ہے وہاں گائے کے ذبحہ کی ہوائی چھوڑ کر مسلمانوں کا قتل عام کردیا جاتاہے، دلتوں کا ویسے ہی جینا حرام کررکھا ہے سکھوں کو بھی اچھوت بنایا ہوا ہے برہمن کسی کم ذات کے ہندو کو منہ لگانا تو دور کی بات ہے اس کو اپنے کچن میں آنے کی اجازت نہیں دیتے اگر کوئی دلت برہمن کے زیراستعمال نلکے یا کنوئیں سے پانی لے تو اذیت ناک موت اس دلت کا مقدر بن جاتی ہے کیا یہ سیکولرازم ہے! یہ تو بدترین دیوانگی اور نسل پرستی ہے جو آج کی دنیا میں کسی بھی طور مناسب نہیں تو بپن راوت پہلے بھارت کو تو لا مذہب بنالیں اس کے بعد پاکستان کی بات کریں جبکہ پاکستان میں تمام غیرمسلم مسلمانوں کی طرح ہی زندگی بسر کررہے ہیںانہیں ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے، بہرحال اس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کو جتا دیا کہ بھارت جنگ کرنے آئے گا تو دیکھ لیں گے، اس جملے نے بپن راوت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہوگی۔ میجر جنرل آصف غفور نے کرتارپور کے حوالے سے کہا کہ کرتارپور راہداری ون وے ، سکھ یاتریوں کی صرف مذہبی رسومات کے لئے ہے۔ وہ آئیں گے اور پھر وہیں سے چلے جائیںگے، پاکستان سے کوئی نہیں جاسکتا، یعنی بھارت یہ پراپیگنڈہ نہ کرے کہ کرتار پور بارڈر دہشت گردی کے لئے کھولا جارہا ہے ایسی کوئی بات نہیں۔ آخر میں پاک فوج نے پہاڑوں پر بیٹھنے والوں کو پیغام دیا کہ وہ امن کے لئے مسئلہ نہ بنیں، قومی دھارے میں شامل ہوں، اسی میں ان کے لئے بہتری، امن و سلامتی ہے ورنہ پاک فوج کسی وطن دشمن کو نہیںچھوڑے گی اور ان کے لئے واقعی یہ بہتر ہے کہ وہ اسلحہ پھینکیں اور قومی دھارے میں شامل ہوں۔ پاک فوج کا بڑا دل ہے وہ اب بھی ہتھیار پھینکنے والوں کو خوش دلی سے قبول کرلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فالٹ لائنز ہیں جیسے معیشت ، گورننس ، جوڈیشل سسٹم ، جمہوریت اور جمہوریت میں باریاں، ہماری اندورنی فالٹ لائنز ہیں جیسے مذہب یا فرقہ کے نام پر اشتعال انگیزی ہے، ہم ان منفی رویوں سے مبرّا ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی بالادستی ہو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024