بلاشبہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ازل سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جب ماں دنیا سے رخصت ہوئی ہے تو یوں لگا ہے جیسے سب کچھ ہی ہاتھوں سے نکل گیا ہو۔ ماں محبتوں‘ رحمتوں اور بے انتہا شفقتوں کا مجسمہ ہے۔ تین دسمبر صبح پونے دس بجے گھر فون کیا تاکہ امی جان سے بات ہو جائے تو میری ہمشیرہ نے بتایاکہ آج امی جان کسی سے بات نہیں کر رہیں۔ آج بات نہیں ہو سکے گی۔
3 دسمبر کو ہی والدہ صاحبہ بعد دوپہر تین بجے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ جب یہ خبر ملی تو قیامت صغریٰ کا برپا ہونا یقینی تھا مگر میری تو زندگی کی سانسیں بھی میری عظیم والدہ صاحبہ کی دعائوں کا ثمر ہیں۔ دو دسمبر کو آخری بات جو ان سے ہوئی‘ میں نے دعا کی درخواست کی فرمانے لگیں ’’میں ہر کسی کیلئے دعا کرتی ہوں۔ آپ تو میرے بیٹے ہو‘ آپ کیلئے کیوں نہیں کروں گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کیلئے بہت دعائیں کروں گی۔ پہلے بھی کرتی ہوں۔‘‘ اب میں اپنی ماں کی محبت بھری آواز سننے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو گیا ہوں۔ میری والدہ حضرت حافظ سید محمد عبداللہ شاہ صاحب کی نواسی ہیں۔حضرت صاحب قبلہ ولی کامل تھے۔ ان کی اولاد میں تین بیٹے سید نور محمد قادری‘ سید گلزاراحمد‘ سید خلیل احمد اور تین بیٹیاں ہیں۔ میری نانی اماں سیدہ عزت جان‘ حضرت حافظ سید محمد عبداللہ قادری کی سب سے بڑی صاحبزادی اور اللہ کی ولیہ تھیں۔ حافظ صاحب قبلہ انگریزوں کے دور میں فوج میں خطیب امام تھے۔ والدہ صاحبہ نانی اماں کی اکلوتی اولاد ہیں۔ ان کی پرورش بھی ننھیال میں ہوئی۔ ان کے تینوں ماموئوں اپنی اکلوتی بھانجی پر دل و جان سے فدا
تھے۔ بڑے ناز و نعم سے والدہ کی پرورش ہوئی۔ والدہ صاحبہ بھی اپنے تینوں ماموئوں کی دیوانی تھیں۔ 1940ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے ماموں سید نور محمد قادری (ماہر اقبالیات) سے حاصل کی۔ مذہبی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ والدہ صاحبہ کی شادی ہو گئی تو نانی اماں اکیلی ہو گئی۔ جب میں پیداہوا تو نانی اماں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ میری پرورش نانی اماں نے کی۔ والدہ صاحبہ نے زندگی میں کافی نشیب و فراز دیکھے۔ مصیبتیں جھیلیں مگر زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں لائیں۔ انتہائی صابر شاکر خاتون تھیں۔ صوم و صلوٰۃکی پابند‘ ہر مصیبت کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر برداشت کیا۔ کچھ دیر چک نمبر 15 شمالی ضلع منڈی بہائوالدین میں گزارنے کے بعد والدہ صاحبہ بچوںکی تعلیم کیلئے گجرات سے متصل گائوں بوکن تشریف لے آئیں۔ ’’بوکن‘‘ میں میری والدہ صاحبہ کے پڑنانا سید محمد شاہ ’’بخارا‘‘ سے آکر آباد ہوئے تھے۔ پھر ان کے صاحبزادے مولوی محمد چراغ شاہ (ولی کامل) بھی یہیں رہے۔بلاشبہ والدہ صاحبہ کے نانا حافظ سیدمحمدعبداللہ شاہ کے سارے بھائی اولیاء اللہ تھے۔ میرے سب بہن بھائیوں نے بوکن میں رہ کر تعلیم حاصل کی۔ یہاں بھی گائوں کے سینکڑوں بچیوں اور بچوں نے محترمہ والدہ صاحبہ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت حافظ سید محمد عبداللہ شاہ کی نواسی ہونے کی وجہ سے پورے گائوں میں والدہ صاحبہ کو اپنے بیگانے سبھی عزت و احترام سے نوازتے ۔ میری والدہ نے زندگی میں کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ گھر کے صحن میں چلتے پھرتے ہروقت درودشریف کا ورد جاری رہتا ۔ کم کھانا کم سونا اور زیادہ وقت عبادت میں گزارنا۔ یہ ان کی زندگی کا معمول رہا۔ پوری زندگی میں کبھی بھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اگر آپ کو کوئی گالی بھی دے تو آپ نے اس کوجواب نہیں دینا اور چُپ کر کے گھر واپس آ جانا ہے، والدہ صاحبہ کو اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا حد درجہ شوق تھا۔ جب اُن کا شوق پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ اُن کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ماں کے مقام کا احاطہ چند الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح اسلام صرف اور صرف خاتم النبینؐ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتاع اور اُن کی ذات مقدسہ سے سچے عشق کا نام ہے۔ اسی طرح جنت جس کے حصول کے لئے ایک مسلمان سارے اعمال (نماز، روزہ، صدقہ، زکواۃ ، حج وغیرہ) کرتا ہے۔ اس کو خاتم النبینؐ نے ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے والدین کی خدمت کرنا ، نماز روزہ، زکواۃ ، صدقہ حج سے افضل ہے۔ والدہ صاحبہ کو خاتم النبینؐ کی ذات مقدسہ سے عشق تھا۔ درود شریف اُن کا زندگی بھر معمول رہا۔ اہل بیت اطہارؓ کی محبت دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اولیاء اللہ سے دلی محبت تھی۔ حد درجہ سخی اور کبھی بھی کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا۔ مہمان نواز اور غریب پرور تھیں مجھے بخوبی یاد ہے کہ اگر گھر میں کبھی تنگدستی بھی ہوتی تب بھی دوسروں کی ضرورت کو مقدم سمجھا جاتا۔ میری ذاتی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ میرا سنبھلنا مشکل تھا۔ بخدا میری ماں کی شب و روز کی دعائوں نے مجھے ڈگمگانے نہیں دیا۔ آج ہم سب بہن بھائی جو بھی ہیں صرف اور صرف اللہ کے فضل و کرم اور اپنی ماں کی انتھک محنتوں، دعائوں کی وجہ سے اور ان کے قدموں کی خاک کے صدقے میں ہیں۔ بے شک ہر ماں عظیم ہوتی ہے مگر ہماری ماں دنیا کی عظیم ترین ماں تھیں۔ میری بدنصیبی کہ وہ میرے پاس زیادہ دیر نہیں رہیں مگر ہر لمحہ مجھے دعائوں سے نوازتی تھیں۔ یہ فطری امر ہے اولاد میں جو بچہ دور ہو ماں اسکے لئے زیادہ بے چین رہتی ہے ا ور اس طرف دھیان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ میں پھر یہ کہوں گا ہماری ماں دنیا کی عظیم ترین ماں تھیں۔
؎گر نہیں تجھ کو ماں کی عظمت کا شعور
جا اُن سے جا کر پوچھ جن کی نہیں ہے ماں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024