وفاقی وزیر اطلاعات کے اپنوں اور اغیار پر سیدھے وار! اس حقیقت کا اظہار بعید از قیاس نہیں ہو گا کہ پاکستان کے چمنستان سیاست میں مٹر گشت کرنے والوں کی بڑی اکثریت حصول پاکستان کے مقاصد، تحریک پاکستان کے محرکات اور دو قومی نظریہ کی حقیقی روح سے نابلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ قریباً پانچ دہائیوں سے سدید آرائے مملکت ہونے والے کسی نام نہاد جمہوری اور آمر حکمران نے ملک کو بانیان پاکستان کے فرمودات کی روشنی میں اسے اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کی رتی بھر بھی کوشش نہ کی بلکہ عوامی تمنائوںاور امنگوں کے برعکس ہر حکمران سے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر حرص و ہوش اور طمع کے پہلے سیاسی … ہی ایوان اقتدار اور اس کی غلام گردشوں تک رسائی کے پروانے بانٹے، ایسے اقدامات ہی کا نتیجہ نکلا کہ پاکستان کروڑوں عوام کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کے خواب بکھر کر رہ گئے۔ ملک کی حالت زار کا اندازہ اسی بات سے لگانا مشکل نہیں کہ ارض وطن ہر قسم کی معدنی، زرعی سیاحتی، ساحلی اور برف پوش چوٹیوں اور دھلوانوں کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کروڑوں خاندانوں کو خط غربت سے نیچے کی لکیر سے نکال کر دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ممکن نہ بنا سکا۔ اس طویل عرصہ اقتدار کے دوران، زمام اقتدار سنبھالے ہوئے چند ہزار خاندانوں نے مفلس وکلاش کروڑوں خاندانوں کی رگ رگ سے ٹیکسوں کی صورت میں خون نچوڑ کر اپنے اعضاء کے لئے طاقت و توانائی حاصل کی اور سیم و زر کے انباروں کے مالک تنہا ان کا مقصد بنا، جمہوریت کے نام پر اس دوران میں جو بھی پارلیمنٹ وجود میں آتی رہی وہ ملکی وسائل پر قابض سیم و زر کے پجاریوں کے اشارہ ایرو پر سرگرم عمل رہی۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مخصوص مفادات کی خاطر پاکستان کی شہ رگ کشمیر میں بھارتی ظلم و بہیمانہ تشدد کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے مظلوم کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے نجات دلانے کے لئے پارلیمنٹ کو جو کشمیر کمیٹی تشکیل ہوئی اس کی سربراہی حکمرانوں نے اپنے ایسے سیاسی ہمنوا کے سپرد کی جس کے اکابرین نے نہ صرف حصول پاکستان کی عہد آفرین تحریک بلکہ ملت اسلامیہ کے رہبر فرزمانہ حضرت قائداعظمؒ کے دو قومی نظریہ کی شدومد سے مخالفت کی تھی۔ یہی وجہ سے ایسے شخص کی سربراہی میں اللوں تللوں میں کشمیر کمیٹی کا فنڈ اڑانے کے سوا مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کو بھارتی تلسط سے نجات دلانے کی جنبش تک دیکھنے میں آئی پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر یہ بات ان کروڑوں پاکستانیوں کے لئے باعث اطمینان بن رہی ہے جو پاکستان کی شہ رگ کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے روا رکھے گئے بہیمانہ تشدد اور روح فرسا انسانیت سوز مظالم سے کشمیریوں کو نجات دلانے کے لئے موجودہ حکومت کی طرف سے کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کی ایسی کوشش کے اعتراف کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین نامور بزرگ سیاستدان سید علی گیلانی نے وزیراعظم عمران خان کشمیر کے حوالے سے بیان کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں نوائے وقت میں سری نگر سے خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے شائع شدہ خبر میں سید علی گیلانی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا سلگتا اور رستا ہوا ناسور ہے جس سے آج تک لاکھوں زندگیوں کے چراغ گل کر دئیے جو آج بھی انسانیت اور امن و سکون کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے، سید گیلانی نے اس مؤقف کا اظہار وزیراعظم عمران خان کی کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں کی جانے والی تقریر پر کیا تھا۔ چنانچہ مسئلہ کشمیرپر حکومتی مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بڑے صاف ستھرے الفاظ میں کئے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ محض زمین کا نہیں انسانیت کی طرف سے دیکھنے کا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ برسوں بعد پاکستان کی ایک حکومت کے وفاقی وزیر اطلاعات کی زبان سے بھارتی فوج کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی باتیں قوم کو سننے میں مل رہی ہیں ۔
کہ کشمیر میں بھارتی افواج کی طرف سے نہتے کشمیریوںپر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر بھارت سے تعلقات کا راستہ کٹھن ہو جاتا ہے کشمیرکے معاملہ پر بھارت کو حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہو گا گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے یہ بھی کیا کہ کشمیر میں بسنے والے ہمارے جسم کاحصہ ہیں ان کی تکلیف سے ہم اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے پہلی دفعہ کسی پاکستانی وفاقی وزیر کی طرف سے وزیراعظم بھارت مودی کا نام لے کر اسے بری طرح ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا گیا کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی تعمیر و ترقی کی آڑ میں فوجی کارروائیوں کیلئے بلین ڈالروں کا پیکج دیا مگر کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو وہ خریدے یا سرد کرنے میں ناکام ہے۔
کراچی میں گزشتہ دنوں حج آرگنائزر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک سیمینار کے موقعہ میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری نے بڑی کھری کھری باتیں کہی جو مخالفین کے لئے سیدھے وار کی حیثیت سے کم نہ تھے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملک میں بھی دورے پر جاتے تھے۔ وہاں ذاتی تعلقات بنائے۔ جبکہ عمران خان کسی ملک میں دورے پر جاتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ ملک کے لئے جاتے ہیں۔ وہاں دو ملکوں کے درمیان بات ہوتی ہے انہی دنوں انہوں نے اپنے ایک بیان میں وفاقی کابینہ پے درپے ہونے والے اجلاس کے ضمن میں کہا کہ نواز شریف کے دور میں کبھی کبھار کابینہ کا اجلاس ہوتا تھا تو اس دور کے وزراء کئی دن ہاتھ نہیں دھوتے تھے کہ وزیراعظم سے ہاتھ ملایا تھا۔ شہباز شریف کو اللہ تعالیٰ صحت دے۔ ان سے اربوں روپے وصول کرنے ہیں۔ ان کو بھی دس برس اقتدار میں رہنے کے بعد خیال آیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے کمرے ’’پنجرے‘‘ ہیں۔ انہوں نے سیف الرحمن سے لے کر قمر زمان چودھری تک اپنے سیاسی مخالفین کا کیا حشر کیا۔ انہوں نے بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ کس قدر افسوس ناک سلوک کیا تھا۔ شہباز شریف نے تو اس وقت کے جسٹس قیوم کو فون کر کے کہا تھا کہ بینظیر کو تین سال کی سزا کافی نہیں۔ اب قومی احتساب بیورو پہلی دفعہ میرٹ پر شفاف تحقیقات کر رہا ہے۔ نیب آزاد ادارہ ہے۔ ہمارے ماتحت نہیں ہے۔ یہ ادارہ سابقہ حکومت ہی کا تشکیل کردہ ہے۔
ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری نے گزشتہ قریباً چار ہفتوں سے سیاسی مخالفین کے خلاف چومکھی جنگ میں سیدھے وار کرنے کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے الفاظ کے چنائو میں ان کے حس طنز و مزاح کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں منعقدہ ا یک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کا طاقتور طبقہ احتساب کے شکنجے میں نہیں آنا چاہتا۔ عمران خان کی سیاست ملک و قوم کے لئے ہے جبکہ اپوزیشن کی سیاست اپنے گھر والوںکے لئے ہے جو خود کرپشن کے مقدمہ میں ملوث ہیں انہیں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیسے دی جا سکتی ہے۔
البتہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو یہ عہدہ دیا جا سکتا ہے۔ میڈیا سے بات چیت کے دوران وفاقیوزیر اطلاعات و نشریات کاکہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی علم نہیں کہ ان کے خورشید شاہ اس کے ساتھ ہیں یا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ؟ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں کو بھی چٹکی بھری اور کہا کہ ماضی میں صحافیوں نے صحافت کو مشن سمجھا اب صحافت بزنس بھی ہے۔ گئے دور میں اہلِ صحافت نے اپنی جائیدادیں بیچ کر مشنری صحافت کا علم بلند رکھا۔