قدیم یونان کی ایتھنز اور اسپارٹا کی ریاسیتں آپس میں برسر پیکار رہتی تھیں وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچییں کہ خارجی حملوں سے بچاؤ اور ریاست میں امن کے لئے سب سے ضروری امر اس ڈھانچے کو مرتب کرناہے کہ کم سے کم سیاسی انتشار اور لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ امن کے مواقع میسر آسکیں اُس دور کا مورخ ’’برلن‘‘ اُس کو جمہوریت کا نقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔ ان ریاستوں نے شہری کی دریافت میں لازمی عنصر رکھا کہ شہری سے مراد ایسا فرد جو اپنے فرائض اور حقوق کو جانتا ہو۔ جو گلی محلوں کو اپنے گھر کا حصہ سمجھتا ہو جو ذاتی مفاد کی خاطر ملک کا قانون نہ توڑے اس سے تعلیم کا پروسیس شروع ہوا۔ جاپان کے شہنشاہ میجی نے تو تمام اداروں کی بجائے تعلیم کے شعبے کی طرف سب سے پہلے توجہ دی۔ اُسکا خیال تھا کہ تعلیمی شعبے میں اصلاحات کے اثرات براہ راست سیاست، معیشت، اخلاقی اقدار اور معاشرت پر پڑنے لگتے ہیں۔ ڈائریکٹر ایجوکیشن جناب ظفر عنایت انجم نے انٹرویو دیتے ہوئے انہی خیالات کا آغاز کیا وہ کہتے ہیں کہ فرانس میں انقلاب آنے سے قبل ذہنی علمی اور ادبی انقلاب آیا۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں جہاں مسلمان سے مستعار لی گئیں علم کی کرنیں پہنچیں وہاں انقلاب آیا، پروفیسر حتی لکھتا ہے کہ یورپ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تھا وہاں مسلمانوںکے علم کی کرنیں پہنچیں اور وہ جگمگا اٹھا جناب ظفر عنایت انجم نے تعلیمی اصلاحات کے بار ے میں بتایا
کہ کالجز میں کارگردگی، معیار، ڈسپلن اور نظم و ضبط بہت بہتر ہے اُن کی شبانہ اور محنت کا نتیجہ ہی ہے کہ اساتذہ اور طالب علموں میں محنت اور لگن کا جذبہ بیدار ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ آج کے دور کا یہ المیہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کتاب سے دور ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مطالعہ کتاب ایک رواج تھا۔ وقت گزرتا گیا اور نوجوان نسل کی ترجیحات بدل گئیں۔ اُن کو واپس کتاب کی طرف لانا ضروری ہے کیونکہ کتاب کا مطالعہ ہی وسعت سوچ اور وسعت نظر پیدا کرتا ہے اور جب سوچ میںوسعت پیدا ہو گی تو صبر برداشت اور تحمل جیسے عناصر پیدا ہوتے جائیں گے۔ ظفر عنایت انجم ڈائریکٹر ایجوکیشن بذات خود محنتی باکردار اور جدوجہد کرنے والے انسان ہیں جسکا اندازہ ان کے ان خیالات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو وہ نوجوان نسل کے لئے اپنے دل میں رکھتے ہیں اُن سے مختصر سے انٹرویو میں راقمہ کے سامنے یہ بات آئی کہ وہ بہترین سوچ اور بہترین قیادت کے مالک انسان ہیں اُن کا خیال ہے کہ لائبریری کے لئے کالجز میں لازمی طور پر ایک پیریڈ ہونا چاہیے تا کہ طالب علم لائبریری جا کر کتاب کا مطالعہ کریں اور فرض اساتذہ کا ہے کہ وہ کس طریقے سے ایک طالب علم میں یہ شعور پیدا کرتے ہیں کہ وہ دلچسپی سے لائبریری میں جا کر کتاب کا مطالعہ کریں اُن کا خیال ہے کہ کتاب کے مطالعے سے انسان اُس دنیا میں جا پہنچتا ہے کہ جہاں اُس کے لئے سیکھنے کے اور اپنی زندگی کو منور کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ اور شوق ہی نظم وضبط سکھاتا ہے، حقوق و فرائض سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ معاشرے میں Subject کی بجائے شہری ہے۔ ایسا شہری جو ذاتی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کا سوچتا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں دی جا سکتی ہے جو تعلیم کے شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا ہو اور وہاں اقتصادی اور سیاسی نظام میں ناکام رہا ہو۔ ہمارے ہاں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے جو اپنے دستخط کر لیتا ہے وہ پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہو جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی شعور کے ساتھ ساتھ اداروں کو فعال بنائیں جہاں علم لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے تو وہاں سسٹم میں فعالیت آجاتی ہے۔ خود غرضی اور ذاتی مفادات ختم ہو جاتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اجتماعی سوچ حب الوطن جیسے عناصر اُبھارتی ہے۔ اب یہ حکومت کا فرض بن جاتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت جیسی سہولیات عوام تک پہنچائے تا کہ ایک صحت مند پڑھا لکھا معاشرہ معرض وجود میں آئے۔ ڈائریکٹر ایجوکیشن کہتے ہیں کہ انہوں نے کالجز میں اس حوصلہ اور عزم کو زندہ رکھا ہے جو محنت کے جذبے کو اُبھارتا ہے جس کے تحت طالب علم بیرونی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے کر اپنا تشخص منواتا ہے اس مقصد کے لئے وہ کالجز میں دورے کر کے اساتذہ اور طالب علموں کی حوصلہ افزائی کر کے اُنہیں انعامات سے نوازتے رہتے ہیں۔ ایک صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا اساتذہ اور پرنسپل کی بہترین کارگردگی پر کالج کا کوئی بلاک اُن کے نام کرنا شجرکاری مہم ہو یا قومی دن کے حوالے سے تقریب ڈائریکٹر صاحب نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے کام کے ساتھ بہت دیانتدار ہیں اگر ایسی دیانتداری ہر شعبے کا وطیرہ بن جائے تو یقیناً وہ تبدیلی آسکتی ہے جس کے ہم نجانے کب سے منتظر ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024