یہ حقیقت ہے کہ ہندو پاک میں درباروں کی بہت اہمیت ہے۔ ان درباروں کی زیارت کے لئے جانا، دعا مانگنا کارِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے زیادہ تر دربار وں کے رکھوالے یا متولی درباروں والی معزز ہستیوں کی اولاد میں سے ہیں اور پیری مریدی کے نام پر سیاست بھی کرتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے پیری فقیری کے اڈے نہ صرف آمدنی کا ذریعہ ہیں بلکہ عیاشی اور فحاشی کے اڈے بھی ہیں۔ میری اس تحریر سے اگر کسی کو دکھ پہنچے تو میں پیشگی معافی کا خواستگار ہوں میں ان بزرگانِ دین اور اولیاء کرام سے بھی معافی کا خواستگار ہوں برصغیر میں بہت سے مزارات دین اسلام کی روشنی کا منبع ہیں۔ انکی خدمات سے پاک و ہند میں اسلام پھیلا اور ان کے مزار اور انکی تعلیمات آج بھی چشمہ ہدایت اور راہِ نجات ہیں۔ بزرگانِ دین کی صحبت بھی کارِ ثواب ہے۔ان مزارات پر حاضری دینا ،فاتحہ پڑھنا، دعا مانگنا یقیناً انسان کے لئے بہتری کا موجب بنتی ہیں۔
یہ ساری تفصیل دینے کا واحد مقصد آج اپنے قارئین کو سینیگال کی ایک زیارت کا احوال بتانا ہے۔ سینیگال ایک چھوٹا سا ملک افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ یہاں کی آبادی 95 فیصد مسلمان ہے۔اس ملک کا کل رقبہ1,97,000مربع کلو میٹر یا 76,000مربع میل ہے۔ یعنی گلگت بلتستان سے کچھ ہی بڑا۔کہتے ہیں کہ اسکا نام سینیگال دریائے سینیگال کی وجہ سے ہے جو اس علاقے کا سب سے بڑا دریا ہے۔اس ملک کی اندازاً آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ یہ ملک تقریباً سو سال فرانس کی کالونی رہا۔ اسے1960میں آزادی ملی اور کسی حد تک خوشحال ملک ہے۔ اس ملک کا دارالخلافہ ’’داکر ‘‘ہے۔ داکر سے تقریباً 120 میل دور طوبیٰ کا شہر ہے جو سینیگال کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر کی مشہوری کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی ایک عظیم مسجد اور صوفی بزرگ ’’عمادوبمبا‘‘ کا مزار ہیں یہ صوفی بزرگ انیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھنے والے باعزت مذہبی راہنما تھے۔لہٰذا ان کی ساری تعلیم گھر پر ہی ہوئی لیکن ’’عمادوبمبا‘‘ جب جوان ہوئے تو انہوں نے صوفی ازم کا ایک نیا سلسلہ ایجاد کیا جسکا نام تھا ’’اخوان الموردین‘‘Mouride Brotherhood اس سلسلے کے مطابق ایک اچھے مسلمان کو ’’ذہنی جہاد‘‘ کرنا چاہیے جس میں سخت محنت، حاکم وقت کی اطاعت ،منفی سوچ ، جہالت اور جسمانی کمزوری کے خلاف جہاد کرنا ہر مرید کا فرض ہے۔ سخت محنت کی وجہ سے ان کے بہت سے مرید بڑے اچھے بزنس مین ہیں۔ صوفی ازم تو وہ سلسلہ ہے جو کسی متقی پرہیزگار مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے وہ دنیاوی چیزوں میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لیتا۔یہ لوگ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے نام کا ورد کرتے ہیں میوزک کے ساتھ قوالیاں سنتے ہیں اور زندگی کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت سمجھتے ہیں ’’عمادو بمبا‘‘ میں یہ تمام خصوصیات موجود تھیں۔ ’’عمادوبمبا‘‘ ایک بہت ہی امن پسند انسان تھے لیکن فرانسیسی حکمرانوں کو شک گزرا کہ ’’ عمادوبمبا‘‘ عوام کو حکمرانوں کے خلاف بھڑکا رہا ہے۔ لہٰذا حکومتِ وقت نے انہیں ملک بدر کر کے پہلے ’’گبون اور بعد میں ماریطانیہ ‘‘ بھیج دیا۔ یہ دونوں سینیگال کے نزدیکی ممالک ہیں لیکن بجائے ’’ عمادو بمبا‘‘ کا قصہ ختم ہونے کے ان کی اور زیادہ مشہوری ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ذات سے بہت سی کرامات منسوب کی جانے لگیں۔ سب سے بڑی کرامت تو یہ تھی کہ جب ’’عمادو بمبا‘‘ کو کشتی کے ذریعے ملک بدر کر کے گبون لے جایا جا رہا تھا تو اس نے راستے میں کشتی پر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی لیکن اسے اجازت نہ دی گئی۔ اس نے فوری طور پر سمندر میں چھلانگ لگا دی تو سمندر میں ایک جائے نماز سامنے آگئی اور ’’عمادو بمبا‘‘ نے اس جائے نماز پر کھڑے ہو کر نماز ادا کی جب حکومتِ وقت نے دیکھا کہ ’’عمادو بمبا‘‘ کی ملک بدری سے عوام میں اشتعال بڑھ رہا ہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔
اسوقت تک پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ ’’عمادو بمبا‘‘ نے اپنے مریدوں کو نہ صرف حکومتِ وقت کی اطاعت پر مائل کیا بلکہ اس حکومت کی مدد کے لئے فوج میں جا کر جنگ لڑنے کا درس بھی دیا۔ جس سے بہت سے لوگ فوج میں گئے اور فرانسیسی حکومت ان سے بہت خوش ہوئی۔ لہٰذا حکومت نے انہیں Legion of Honorsکے ایوارڈ سے نوازا جو کہ فرانس کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ ’’عمادو بمبا‘‘ کی وفات کے بعد اسے طوبیٰ کی عظیم مسجد کے نزدیک ہی دفن کیا گیا جہاں ان کا مزار تعمیر کیا گیا۔ یہ مزار روحانیت کا منبع ہے اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ ’’عمادو بمبا‘‘ کے مریدوں کی تعداد 30سے 50لاکھ ہے جو کہ صرف سینیگال میں ہی نہیں بلکہ اور ملکوں میں بھی آباد ہیں۔ اسلامی مہینے کی اٹھارہ صفر المظفر کو لوگ دور و نزدیک سے اس مزار کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ اس زیارت کو مقامی زبان میں ’’عظیم مجل‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ وہ تاریخ ہے جس دن یہ بزرگ جلا وطنی سے واپس آئے تھے۔اس سال دس لاکھ مرید زیارت کے لئے گئے۔ وہاں لوگ عبادت کرتے ہیں۔ ’’عمادو بمبا‘‘ کی لکھی گئی کتاب پڑھتے ہیں۔ مذہبی راہنما تقریریں کرتے ہیں۔کچھ جو لوگ عبادت کے لئے وہاں نہیں جا سکتے وہ اپنے اپنے شہر اور قصبے میں اکٹھے ہو کر پریڈ کرتے ہیں۔ اس سال سینیگال اور امریکہ کا پرچم اٹھا کر امریکہ میں رہنے والے سینیگالیوںنے نیو یارک میں بھی پریڈ کی۔