چین کا مسئلہ کشمیر کوعالمی سطح پر اجاگر کرنا خوش آئند ہے
مسئلہ کشمیر پر جو ملک ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور مختلف علاقائی، بین الاقوامی اور عالمی فورمز پر جنھوں نے پاکستان کے موقف کی بار بار تائید و حمایت کی ہے چین ان میں سے ایک ہے۔ چین کے ساتھ کی وجہ ہی سے بھارت کو کئی اہم بین الاقوامی فورمز پر منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں مختلف بین الاقوامی تنازعات کو زیر بحث لانے اور ان کے حل سے متعلق اہم ترین فورم سمجھی جاتی ہے، چین نے اس فورم پر بھی کئی بار اپنے واضح اور دو ٹوک موقف کے ذریعے عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ وہ بھارت کو خطے میں طاقت کے توازن اور معاملات کو بگاڑنے کے لیے جموں و کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم رکھنے پر خاموشی اختیار نہیں کرے گا۔ چین کے یہ معاملات اس کی پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی کی دلیل بھی ہیں اور خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے ایک اہم عامل کے طور پر اس کی مستحکم حیثیت کا اعلان بھی۔
اب ایک بار پھر چینی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ متعلقہ فریقوں کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر فریقین کو کشیدگی کو بڑھانے والے یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ چینی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ہوا چن ینگ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف واضح اور مستقل ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے دیرینہ تنازعہ کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ ترجمان ہوا چن ینگ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر کے معاملے پر چین کا موقف واضح اور مستقل ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخ کا چھوڑا ہوا ایک مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری بھی اس مسئلے کے بارے میں ایک مشترکہ نقطہ نظر رکھتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ درحقیقت چین نے تین برس قبل بھی یہی کہا تھا کہ متعلقہ فریقوں کو تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن سے کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ہو۔
ادھر، ناروے کے سابق وزیر اعظم کیجل میگنے بونڈیوک نے مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں ثالثی کا کردار بھی ادا کریں گے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں واقع پا کستانی سفارتخانے کے زیر اہتمام تیسرے ’یومِ استحصالِ کشمیر ‘ کے موقع پر منعقدہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق نارویجین وزیراعظم نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انھوں نے بھارت سمیت سری نگر، مظفر آباد اور اسلام آباد کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے اگر مسئلہ کشمیر فوری حل نہ ہوا تو یہ تنازعہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگا۔سینیٹر مشاہد حسین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 5 اگست 2019ء سے اب تک 15000 سیاسی قیدی بھارت کی قید میں ہیں جبکہ معیشت کو 5.3 ارب ڈالر کے نقصان ہوا اور پانچ لاکھ ملازمتیں ختم ہوئیں۔ ویبینار میں برطانوی ہاؤس آف کامنز کے ڈپٹی لیڈر برطانیہ کے ایم پی افضل خان، شمیم شال، لارڈ واجد خان اور کشمیری امریکن رضوان قادر نے بھی شر کت کی۔
چینی وزارتِ خارجہ کا مذکورہ بیان اور واشنگٹن میں ہونے والا ویبینار دونوں ہی بہت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں دنیا کی آبادی کے ان گوشوں تک بھی آواز پہنچے گی جو اس معاملے کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ایسے ویبینارز اور دیگر پروگرام ایک تسلسل سے منعقد ہونے چاہئیں تاکہ دنیا کو بھارت کی چیرہ دستیوں اور نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے مسلسل آگاہ کیا جاسکے۔ چین اور دیگر ہم خیال اور دوست ممالک کو ساتھ ملا کر ہم دنیا بھر میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا مسلسل چرچا کرسکتے ہیں جس سے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو یہ پتا چلے گا کہ بھارت کس طرح ظلم و ستم کر کے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہا ہے اور اس کی وجہ سے جموں و کشمیر کا علاقہ اپنے ہی باسیوں کے لیے ایک قید خانہ بن کر رہ گیا ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستان کے سفارت خانے اور قونصل خانے موجود ہیں ان کے باہر ایسے کاؤنٹرز نصب کیے جانے چاہئیں جن پر 5 اگست 2019ء سے شروع کر کے دنوں کی گنتی درج ہو جس کے ذریعے دنیا کو یہ بتایا جاسکا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کب سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہورہے ہیں۔ دنیا میں کشمیریوں کی آواز جس تسلسل سے پہنچے گی اور ان پر بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کا ذکر جس تواتر سے ہوگا اسی سے یہ طے ہوگا کہ دنیا کشمیریوں کے حق میں بھارت پر دباؤ کیسے ڈالے گی۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے حوالے سے ہر ترقی یافتہ ملک میں عوام بہت حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، لہٰذا ہمیں بھارتی غاصب سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مظلوم کشمیریوں کے حقوق چھینے جانے کا پیغام دنیا بھر میں پہنچانا چاہیے۔