سیلاب متاثرین کے لیے امدادی فنڈکا قیام
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی فنڈ قائم کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جس طرح اہل ِ پاکستان نے 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے ملک کے سب سے بڑے سیلا ب کے وقت متاثرین کی دل کھول کر مدد کرکے پوری دنیا میں ایک مثال قائم کی تھی آج بھی اسی جذبے کی ضرورت ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ سیلاب متاثرہ بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کی مدد انصارِ مدینہ والے جذبے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے ملک کا بیشتر علاقہ اس وقت شدید بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ معمول سے زیادہ بارشو ںنے چاروں صوبوں کے درجنوںاضلاع میں تباہی مچا دی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں مکانات ڈھ گئے، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، مویشی پانی کے ریلے میں بہہ گئے اور انسانی جانوں کا بھی بہت نقصان ہوا۔ اس وسیع پیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصان کے پیش نظر اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کو مالی امداد مہیا کرنے اور ان کی بحالی کے لیے اقدامات بروئے کار لا رہی ہیں اور افواج پاکستان کی امدادی ٹیمیں بھی سیلاب میں گھرے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں لیکن یہ تمام اقدامات اور انتظامات محض وقتی اور عارضی نوعیت کے ہیں۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں ہر سال طوفانی بارشیں آتی ہیں اور سیلاب سے بے پناہ نقصان ہوتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے آج تک مستقل بنیادوں پر حکمت عملی تیار نہیں کی۔ ہر سال تباہی کے ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن نہ تو حکومتی عہدیداران سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں اور نہ ہی متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری کماحقہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں اور متاثرین کی مالی امداد کرکے فرض کی ادائیگی سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ یہ رویہ اور یہ پالیسی کسی طور بھی مناسب نہیں۔ اب جبکہ جدید سائنسی آلات و ٹیکنالوجی کے ذریعے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں بھی کی جاتی ہیں پھر بھی پیش بندی کے طورپر کچھ نہیں کیا جاتا۔حکومت کو چاہیے کہ ملک کی اشرافیہ، ارکانِ پارلیمان ، خصوصاً وفاقی و صوبائی کابیناؤں میں شامل شخصیات، بڑے جاگیرداروں اور کاروباری حضرات کو انصارِ مدینہ کا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرے تاکہ متاثرین کی امداد کویقینی بنایا جاسکے ۔