ممنوعہ فنڈنگ ، تحقیقات میں شفافیت ضروری
پاکستان تحریکِ انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں بیک وقت چھے انکوائریاں جاری کر دی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے لیے استعمال ہونے والے اکائونٹس جن بینکوں میں ہیں ان کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ عدالتوں نے ان بینکوں کو مکمل تفصیلات فراہم کرنے کے احکامات دے دیے ہیں۔ ہفتے کے روز پی ٹی آئی سیکرٹریٹ کے چار ملازمین کو بھی طلب کر کے ان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل کیس ہے جس میں پی ٹی آئی اور اس کی قیادت پر آئینی اعتبار سے ممنوعہ فنڈز کے حصول کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مختلف ادارے اس ضمن میں تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے اس حوالے سے تفتیش کے لیے پارٹی کے اہم رہنمائوں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور صوبائی وزیر محمود الرشید سمیت دیگر کو بھی طلب کر لیا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کے لیے استعمال ہونے والے اکاؤنٹس جن بینکوں میں ہیں ان کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے مذکورہ تحقیقات پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء کے تحت کر رہی ہے۔ اس ضمن میں بنائی گئی کمیٹیاں مذکورہ پارٹی عہدیداران کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرکے جانچ پڑتال کریں گی۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ان اقدامات کو حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے قرار دیا جارہا ہے اور واضح کیا گیاہے کہ وہ سیاسی اور قانونی محاذ پر ان کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ چونکہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا کیس ہے اس لیے حکومت کو بھی اس کیس میں تحقیقات کے سلسلے میں پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور میرٹ سے ہٹ کر کوئی ایسا قدم بھی نہیں اٹھانا چاہیے جس سے کسی انداز میں بھی یہ تأثر پیدا ہو کہ حکومت پی ٹی آئی کے خلاف کس تعصب یا انتقام سے کام لے رہی ہے یا سیاسی اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کی قیادت کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے تحقیقات میں شفافیت ہی کیس میں شرطِ اوّل قرارپاتی ہے۔