پیر، 9 محرم الحرام، 1444ھ، 8اگست 2022 ء
بنی گالہ میں ہزاروں اساتذہ کا احتجاج اور دھرنا
لیجئے جناب ڈی چوک اسلام آباد کے بعد اب لگتا ہے مظاہرہ کرنے والوں نے ایک اور جگہ بھی ڈھونڈ لی ہے۔ وہ جگہ شہرہ آفاق بنی گالہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے امرا اور شرفا کے محلات ہیں۔ خدا جانے اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ان کے پاس کہ یہ اس پہاڑی پرستان میں آ کر بسیرا کرتے ہیں۔ کہنے کو یہ سب پاکستانی ہیں، مسلمان ہیں۔ ان میں نمازی بھی ہوں گے اور حاجی بھی مگر کیا مجال ہے جو یہ اپنے محل کی بالکونی سے جھانک کر کبھی زمین پر رینگنے والے غریب غربا پر بھی نظر ڈالیں ان پر بھی اپنے مال سے کچھ خرچ کریں۔ یہ سب کچھ یہ لوگ اپنے خاندان وہ بھی صرف گھر والوں کے لیے جمع کرتے ہیں۔ جن کے لیے ’’ہلاکت ہے کثرت سے (مال) جمع کرنے والوں پر‘‘ کا حکم ہے۔ بہرحال یہاں ہمارے پیارے رہنما عمران خان بھی ایک پہاڑی کی چوٹی پر اپنے طلسمی محل میں رہتے ہیں۔ اب پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حکومت ہے تو راولپنڈی کے ہزاروں ٹیچروں نے سی ای او ایجوکیشن کو ہٹانے کے لیے بنی گالہ میں خان جی کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا دھرنا دیا۔ انتظامیہ نے ان کو ڈرانے کے لیے بجلی بند کر دی مگر یہ ڈٹے رہے تو بالآخر انتظامیہ نے تحقیقاتی کمیٹی بنانے اور نوٹیفکیشن جاری کرنے کا وعدہ کیا جس پر اساتذہ وہاں سے چلے گئے۔ اب لگتا ہے پنجاب حکومت کو بنی گالہ کو بھی ریڈ زون قرار دے کر وہاں اجتماع پر پابندی لگانی ہو گی تاکہ وہاں کے رہائشیوں کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ ورنہ آئے روز کوئی نہ کوئی وہاں جلوس لے کر پہنچا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
گجرات میں ہندو طلبا کا دلت کا پکایا کھانا کھانے سے انکار
یہ ہے وہ دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد کی اور ارض پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا۔ جب تک انتہا پسند ہندو دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنے کی سوچ نہیں بدلیں گے۔ پاکستان جیسے نجانے کتنے اور ملک بھارت کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے نمودار ہو کر رہیں گے۔ دلت خود بھی ہندو ہیں مگر ان کو نیچ ذات کی وجہ سے ہندو اونچی ذات والے اپنے برابر کا نہیں سمجھتے جس طرح یہ لوگ مسلمانوں کو ’’ملیچھ‘‘ قرار دے کر ان کو چھونا ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح اب دلتوں کو چھونا ان کے ہاتھ سے کھانا پینا ان کے نزدیک ’’پاپ‘‘ ہے۔ گجرات کے ضلع موربی میں ایک دلت ٹھیکیدار کو سکول کے 100 طلبہ کھانے پکانے کا ٹھیکہ ملا تو صرف 7 طلبہ کھانے کے لیے آئے باقی سب غیر حاضر رہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پرائمری سکول کے طلبہ میں جب یہ چھوت چھات کی چھاپ اتنی گہری ہے تو بعد میں ان کے ذہن میں کتنی نفرت پیدا ہوتی ہو گی۔ یہی حال مسلمانوں کے ساتھ تھا جنہوں نے اسی لیے دو نمبر بن کر رہنے کی بجائے اپنا آزاد وطن بنا لیا۔ اب خدا کرے یہ دلت بھی متحد ہو جائیں اگر ڈرتے ہیں تو مسلمان ہو کر 22 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اتنی طاقت پیدا کریں کہ جوڑ برابر کا ہونے کی وجہ سے یہ ہندو مہا سبھائی انتہا پسند غنڈے ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ پائیں گے۔ اسلام میں سب برابر ہیں کوئی بڑا چھوٹا اونچا یا نیچا نہیں اور سب سے بڑھ کر اسلام بہادر بناتا ہے بزدل نہیں۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے کے لیے امریکہ کی طرف سے 35 گاڑیوں کا تحفہ
یہ عجب دستور ہے اہل سیاست کا۔ جب مطلب ہو تو خاموشی سے جوتے بھی کھا لیتے اور پیاز بھی ۔ جب مطلب نکل گیا تو آنکھیں بھی نکالتے ہیں اور دانت بھی دکھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی عجیب واقعہ سب نے دیکھا۔ امریکی سفیر خیبرپی کے کے دورے پر گئے اور وہاں پشاور انتظامیہ کو 36 یا 35 گاڑیاں محکمہ صحت کے لیے عطیہ کیں تاکہ طبی سہولتوں کی فراہمی میں مدد ملے۔ خیبر پی کے کی حکومت نے نہایت خوش دلی سے ان کا استقبال کیا نہایت ممنونیت سے گاڑیاں وصول کیں، اس موقع پر شاید انہیں بھول گیا کہ ان کے قائد غلامی سے نکلنے کا دعوے کرتے ہیں۔ بھیک مانگنے یا خیرات لینے پر مرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر امریکی سفیر کا تو نام ہی ڈونلڈ بلوم ہے۔ ایک ایسی ہی امریکی سفارت کے حوالے سے پوری پی ٹی آئی یک زبان ہو کر ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کے نعرے لگاتی پھرتی تھی۔ آج اس کے ہی ہم نام سے یہ عطیات وصول کر رہی ہے۔ اب معلوم نہیں حقیقت کیا ہے، بقول غالبؔ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
اب کہاں گئے وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء کی اکڑ فوں جو یہ گاڑیاں دیکھ کر ککڑوں کڑوں میں بدل گئی۔ مزہ تو تب تھا جو غیرت مندی کے دعوے کرنے والے یہ تحفہ واپس ان کے منہ پر دے مارتے اور انہیں واپس جانے کا کہتے۔ مگر یہ ان سے ہو نہ سکا۔ الٹا خوشگوار بات چیت ہوئی استقبالیہ دیا گیا۔ 2 روز بعد اب مردہ باد کا نعرہ یاد آنے پراب نئے نئے بہانے ہوں گے۔
٭٭٭٭
بچے کی نازیبا ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے والے کو 22 سال قید سخت اور 22 لاکھ جرمانہ
یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ اس طرح کم از کم ان بے ہدایتوں کو اچھا سبق ملے گا جو یہ گھنائونا کام کرتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ان کی برہنہ ویڈیو بنا کر انہیں بلک میل کرنا اور انہیں قتل کرنا بدترین جرائم میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر زیادتی اور ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کے واقعات میں متاثر بچے ساری زندگی اذیت اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے سے عاجز ہو جاتے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی شدید اذیت و تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ ایسا کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے سے معاشرے میں پھیلی یہ انارکی ختم ہو سکتی ہے۔ غلط صحبت، برے دوست، موبائل فون اور نیٹ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ فحش مواد نے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اب ذرا ان کی بھی خبر گیری کرنی ہو گی۔ اس میں سب سے اہم کردار والدین کا بھی ہے۔ انہیں بچوں کے کردار اور تعلقات پر نظر رکھنا ہو گی ہو سکے تو موبائل سے دور رکھنا ہو گا۔ اسی طرح اساتذہ بھی بچوں پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ بھی ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ورنہ پھر قانون کے مطابق ہر مجرم کو کڑی سے کڑی سزا دے کر اس غلط روش کو عام ہونے سے روکنا ہو گا۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ گھر محلے اور اردگرد ایسے کسی شخص کو مشکوک پائیں تو فوری ایکشن لینا ہو گا۔ چھوڑو یار ہمیں کیا کی عادت بدلنا ہوگی۔
٭٭٭٭