واقعہ کربلا اور پاکستانی سیاست

واقعہ کربلا کو چودہ سو سال گزر گئے ہیں تاریخ انسانی کا کوئی دوسرا ایسا واقعہ نہیں جس پر اتنا لکھا گیا بولا گیا ہو یاد کیا گیا ہو یہ واقعہ ہر دم تازہ ہے اور قیامت تک تازہ رہے گا۔ امام حسین علیہ السلام کی انمول قربانی کی کوئی دوسری مثال نہیں دی جا سکتی۔ واقعہ کربلا ہمیں حق کی خاطر ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا حسینیت ہے ۔ہم حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی یاد میں تو بہت کچھ کرتے ہیں لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جو انھوں نے ہمیں درس دیا اس کی کس قدر پیروی کی۔ کیا ہم نے حق بات کے لیے ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دیا ؟ کیا ہم نے جابر سلطان کے غلط احکامات کو چیلنج کیا ہے؟ اگر غور کیا جائے تو ہمارا کردار تضادات کا شکار نظر آتا ہے۔ آج کا دور حق اور باطل میں تفریق کرنے والا نہیں بلکہ حق اور باطل کو گڈ مڈ کرکے مفادات حاصل کرنے کا ہے ۔آج کا دور اصولوں ضابطوں کی بجائے مالی مفادات کا دور ہے ۔حکمرانوں سے لے کر لیڈروں تک اور عام آدمی تک ہر کوئی سمجھوتوں کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ آج کی لیڈر شپ شیر کی ایک دن کی باعزت زندگی گزارنے کی بجائے گیدڑ کی سو سالہ زندگی کو ترجیح دیتی ہے۔ قول وفعل کے تضاد نے معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ منافقت کو کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ بات بات پر مکر جانا فن کہلاتا ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے پینترے بدلنا سیاست کا رہنما اصول تصور کر لیا گیا ہے۔ جھوٹ بولنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ طاقتور کے سامنے لیٹ جانا اور کمزور پر چڑھائی کرنا فیشن بن چکا اور پھر کہنا ہم امام حسین علیہ السلام کے ماننے والے، ان کی تقلید کرنے والے ہیں جو انجام کی پروا کیے بغیر ظالم اور جابر شخص کے سامنے حق بات کہنے کی جرا ٔت رکھتا ہے وہی امام حسین علیہ السلام کے ماننے والوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج کے یزیدوں کے سامنے ہم سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ آج پاکستانی معاشرہ جو ذلیل وخوار ہو رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے حق بات کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ۔ہم دنیاوی طاقتوں سے مرعوب ہیں ۔ہمارا ایمان اتنا کمزور ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں ناراض ہو گیا تو وہ ہمیں تباہ کر دے گا یا ہم پر پابندیاں لگا کر ہمیں بھوکوں مار دے گا ۔ہماری سیاست منافقت کا اعلی نمونہ پیش کر رہی ہے۔ نہ ظالم کی تمیز ہے نہ مظلوم کی۔ جس کی پاس اونچا بولنے کی سکت ہے اور زیادہ شور مچا سکتا ہے وہ اپنے آپ کو سچا ثابت کر رہاہے ۔ سرعام ضمیروں کے سودے ہو رہے ہیں صبح شام وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے بد کردار حکمران کی بیعت قبول نہ کر کے ہمیں درس دیا کہ چاہے جان چلی جائے کوئی پروا نہیں لیکن حق بات پر ڈٹ جاو آج ہم جانتے بوجھتے ہوئے اس سے الٹ کام کر رہے ہیں۔ طاقتور کی خوشنودی کے لیے طاقتور کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ حضرت امام حسین موروثیت کے خلاف ڈٹ گئے تھے لیکن آج ہم خاندانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں ۔نسل در نسل حکمران کلاس چلی آرہی ہے ۔ان کے بچے بھی حکمران ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس رعایا نسل در نسل غلام پیدا کر رہی ہے ۔کیا ہمارے ہاں سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری نہیں؟ سیاستدانوں کی تیسری نسل ہم پر حکومت کے لیے تیار ہے اور رعایا بھی اتنی بے حس ہے کہ اسے کوئی اور جچتا ہی نہیں ۔یہ اسلام کے احکامات سے دوری اور درس حسین کی نفی ہے ۔حال ہی میں پاکستان کی سیاست میں جو تماشے ہوئے ہیں اس نے پورے معاشرے کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے پوری دنیا میں ہم تماشہ بن کر رہ گئے ہیں بلکہ تماشہ بنے ہوئے ہیں اور لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک تباہ و برباد کیا جا رہا ہے پاکستان میں جس کے پاس زرا سا بھی اختیار ہے وہ منصف بننے کی بجائے فرعون بنا بیٹھا ہے۔ حق دار کو حق نہ دینا بھی یزیدیت ہے۔ جب ہمارا سرکاری ملازم میرٹ کی بجائے ذاتی پسند کے مطابق لوگوں سے ڈیل کرتا اور چند ٹکوں کی خاطر میرٹ کی دھجیاں اڑا دیتا ہے تو وہ دراصل یزید کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ آج کے دن کاتقاضہ ا ہے کہ ہم ہر سطح پر حق بات کہیں۔ مظلوم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں۔ اس سے نہ صرف معاشرے سے ظلم ناانصافی ختم ہو سکتی ہے بلکہ پر امن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ آخر میں سیاست کے حوالے سے بات ہو جائے ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کو فوری طور پر انتخابات کی طرف لانے کے لیے نیا کارڈ کھیلا ہے ۔حکومت نے تحریک انصاف کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے عدم اعتماد کے راستے کو بند کرنے کی کوشش کی اور ان میں سے 9حلقوں میں ضمنی الیکشن کروانے کا شیڈول جاری کر دیا ۔عمران خان نے 9حلقوں میں خود امیدوار بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ سیٹیں جیت کر دوبارہ خالی کر دی جائیں گی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کتنی دفعہ ان پر الیکشن کروانے گا۔ یہ حکومت کو انتخابات پر مجبور کرنے کی حکمت عملی ہے۔ دوسری جانب 13 اگست کو اسلام آباد میں تحریک انصاف پاور شو کرنے جا رہی ہے تاکہ حکومت پر دباو بڑھاسکے ۔ عمران خان مسلسل حکومت پر عوامی دباو بڑھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ حکومت بھی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے ذریعے عمران خان ان کے ساتھیوں اور تحریک انصاف پر بھر پور وار کر کے انہیں دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف لے کر جا رہی ہے حکومت اپنی شرائط اور مرضی کے مطابق الیکشن میں جانا چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف اپنی مرضی کے مطابق فوری الیکشن کی خواہاں ہے۔