واقعہ کربلا نظریات کا ٹکراو
سارا سال یزید کو گالیاں دینا اور کرسی پہ بیٹھ کے خود یزید بن جانا،سارا سال شمر کو ظالم کہنا اور عدالت میں بیٹھ کے چند کوڑیوں کے عوض انصاف کو بیچ دینا۔تم میں اور اُن میں کیا فرق ہے ہمارا دین رسم و رواج پر نہیں بلکہ حقائق پر ہے۔واقعہ کربلا تاریخ کا درد ناک ترین واقعہ ہے ۔یہ اقتدار کی جنگ نہ تھی بلکہ اقدار کی جنگ تھی وو شخصیات کی جنگ نہ تھی دو نظریات کا ٹکراو تھا یہ حق اور باطل کی جنگ تھی اسی لیے آج یزید ظلم کا ستعارہ ہے حسینؓ ابن ِ علی امن کی علامت ہے،یزید جبر کا پُتلا ہے حسینؓ صبر کا پیکر ہے۔ قربانی کا سلسہ بہت پرانا ہے۔جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے ۔اللہ پاک نے ہمیشہ ہی اپنے پیاروں سے مختلف اشکال میں قربانی لی ہے اللہ کے وہ برگزیدہ بندے جن سے اللہ پاک نے قربانی طلب کی اور وہ قربانی دے کر سرخرو ہوئے ۔رسول پاک ﷺ نے حضرت حسین ؓ کے پیداہوتے ہی اپنی پیاری بیٹی کو کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت سے باخبر کر دیا تھا۔یوں دیکھا جائے تو یہ آزمائش رسول پاک ﷺ اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بھی تھی۔اس لیے ان پاک ہستیوں نے حضرت امام حسینؓ کو اس بڑی قربانی اور آزمائش سے نبٹنے کے لیے ایسی فکری تربیت کی کہ امام حسینؓ کے قدم کسی صورت ڈگما نے نہ پائے۔امام حسین ؓجن کا بچپن شہر علم کے کندھوں پر سوار ہو کر مہر نبوت سے کھیلتے گزرا۔حسین ؓ وہ جو علم کے دروازے کا دربان رہے ۔حسین وہ جن کے لیے اللہ کے پیارے اور محبوب نبیﷺ اپنے سجدے طویل کر دیتے تھے۔حسین ؓ وہ جن کی تربیت کائنات کی دو عظیم ہستیوں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے کی ۔اس حسین ؓ کے علم دانش کی انتہا کیا ہو گی۔اسی علم کی وجہ سے آپؓ بہت دور تک نگاہ رکھتے تھے اور اسی علم کی وجہ سے آپؓ نے یزید کی بیت سے انکار کیا تھا۔آپ یزید سے جنگ کے ارادے سے یا اقتدار کی خواہش کے لیے کوفہ کی طرف محو سفر نہیں ہوئے تھے۔بلکہ آپ ؓ ملعون یزید کواتحام حجت کے لیے نصیحت دینے کے لیے اور کوفہ کے لوگوں کی دلجوئی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ جب آپ کربلا کے مقام پر پہنچے تو اپنے رفقا کو کہا کہ یہیں خیمے لگا دو ۔اللہ پاک نے اپنے تمام پیغمبروں کو مختلف امتحانات سے آزمایا ۔کسی کو بھوک,کسی کو جان کا خوف ,کسی کو مال کا نقصان ,ناموس کی حفاطت اولاد کی جدائی اور کسی کو پیاس کی شدت سے آزمایا۔جان کا خطرہ بھی آپؓ کے سامنے تھا ۔ناموس بھی نشانے پر تھی۔بھوک و پیاس سے نڈھال اولاد بھی آپؓ کے ساتھ تھی۔دنیا میں بہادر سے بہادر شخص اپنے ساتھ ہر طرح کا سلوک برداشت کر لیتا ہے۔کسی خاص مقصد کے لیے جان و مال قربا ن کرنے کو تیار بھی بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔مگر کوئی بہادر سے بہادر شخص اپنی اولاد کو اپنے سامنے بھوک و پیاس اور گرمی کی شدت سے تڑپتے دیکھ کر اپنے حو صلے برقرار نہیں رکھ سکتا۔مگریہ امام حسین ؓ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ذات پر دشمن کا ہر جبر برداشت کیا بلکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے معصوم بچوں کو بھوک اور پیاس سے تڑپتے بھی دیکھا ۔اپنے ساتھیوں کو زخموں سے نڈھال بھی دیکھا۔ بیمار ساتھی بھی آپؓ کے سامنے تھے۔ بیٹیوں , بہنوں اور اپنی دوسری رشتہ دار خواتین کے چہروں سے ان کے اندر کا کرب بھی محسوس کیا۔آ پ نے ہر مصیبت کا ہر تکلیف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس لیے کہ آپؓ کو صرف اپنے رب کی رضا کی مقصودتھی۔
حق و باطل کی یہ جنگ جو خیر کی بالا دستی اور شر کو ختم کرنے کے لیے برپا ہوئی ۔اس کا مقصد دنیا کو یہ سبق دینا مقصود تھا۔واقعہ کربلا ایک نظریہ حیات ہے ایک مکتبہ فکر ہے جس کے اندر انسانیت کی پوری تاریخ پوشیدہ ہے۔آج کے دور میں ہمیں واقعہ کربلا سے سبق لیتے ہوئے ہمیں جابر و فاسق حکمرانوں اور ظالم طاقتوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آج امام حسین ؓکی ذات کو عملی شکل میں خر اج پیش کرنے کے لیے آپ کے افکار کو مد نظر رکھا جانا چاہیے۔پوری دنیا میں مسلمان آج سخت مشکل میں ہیں۔مگر دنیا میں کہیں بھی آج مسلمانوں میں یزیدی طاقتوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی ہمت نظر نہیں آرہی ہے ۔حسین ؓ نے اپنے بچے قربان کر دیے مگر آج بھی حسین ؓ زندہ ہے ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کی دستانیں آج بھی زندہ ہیں۔حسینؓ کا فلسفہ عشق بھی زندہ ہے۔آپ اپنا سب کچھ قربان کر کے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گئے،دنیا کے لیے بہادری اور استقامت کا ایک لازوال سبق دے گئے۔ہم اپنا آج بچانے کے لیے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ہمیں حضرت امام حسینؓ کی قربانی کا واقعہ تو یاد ہے ۔مگر ہماری زندگیوں میں عملی طور پر اس قربانی کا کوئی نمونہ آج کے دور میں نظر نہیں آرہا ہے۔صرف دس دنوں کے لیے آپ کی یاد میں مجالس جلوس اور محفلیں سجائی جاتی ہیں۔اگر مسلمانوں نے دنیا میں عزت سے جینا ہے تو انہیں امام حسینؓ کے دیے ہوئے بہادری اور جانبازی کے اسباق کو اپنی پوری زندگیوں میں پوری طرح شامل رکھنا ہوگا۔