اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
سیاسی جماعتوں کا دھڑے بندیوں میں بٹنا متحد ہونا الائنس بنانا اور حکومت گراو پالیسی پاکستان کی تاریخ کا حصہ رہی ہے لیکن سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی ان محرکات سے نبرد زما ہونے کے لئے کیا حکمت عملی ہے
دوسال گزرنے کے بعد آج حکومت کس مقام پر کھڑی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکے کہ ان کے دو رحکومت میں کیا معاشی تبدیلیاں آئیں اور عوام کو کیا ریلیف ملا موجودہ حکومت جب برسراقتدارآئی تو اسکو ورثے میں معیشت کی زبوںحالی معیشت غربت مہنگائی بے روزگاری تحفے میں ملی جبکہ حکومت کے منشور میں معیشت کی بحالی بدعنوانی کا خاتمہ اور غربت میں کمی تھااب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو اس نہج پر لے جائیں جہاں یہ تحریکیں اور الائنس بے معنی ہوکر رہ جائیںحکومت نے پہلے ہی دن سے اپنی تقریرں مین جس اتحاد اور مشرکہ پلیٹ فارم کا ذکر کیا تھاآج اسی اتحاد کی ضرورت ہے تاریخ گواہ ہے کہ غیر آئینی طریقوں سے حکومتیں گرانا ناممکن ہے یہ محرکات سیاسی انتشار کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں درحقیقت یہی انتشارمثبت اور تعمیری کاموں مین رکاوٹ ہے کرونا جیسی صورتحال مین جس یکسوئی کی ضرورت تھی ہر سطح پر اسکا فقدان نظر آیا، محاذ آرائی اور مخاصمت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا دوسری طرف حکومت کے دوسال گزرنے پر بھی اس واضح حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے جس کے تحت وہ اپنی کارکرگی پر سیر حاصل بحث کرسکیں۔ اس صورتحال نے ڈیڈ لاک کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اب حکومت کو معاشی صورتحال مہنگائی کے عفریت اوراپوزیشن کی یلغاروں سے نبرد آزما ہونے کے لئے کارکردگی کو بڑھانا ہوگا کارل پاپر جس کے نظریات نے فلسفہ اور سیاست کی دنیا میں ہلچل مچا دی اس نے اس خیال کو متعارف کروایا کہ کوئی ریاست نہ تو مجموعی طور پر خوبیوں کا مرکب ہوتی ہے کہ اس میں منفی عناصر نہ ہوں اور نہ ہی خامیوں کا مجموعہ کے اچھائی کو ڈھونڈنا ناپید ہوجائے۔ اس صورتحال میں حکمران وقت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اجتماعی شعور اور اجتماعی مفادات کے تحت لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے برائیوں کے تناسب کو کم کرکے تعمیری کاموں کو فروغ دے سکتا ہے جبکہ ہیگل کا یہ نظریہ ہے کہ جو حکومتیں مسلسل انتشار سے گزتی ہیں آخرکار اس مقام تک جاپہنچتی ہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں لیکن اس کے لئے عزم حوصلے کے ساتھ ساتھ کمزور طبقات کی فلاح کا احساس لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نظر نہیں آتا جب غریب کی قسمت نے پلٹا کھایا ہو اسوقت جہاں معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے وہاں عوام کے لئے ضروریات زندگی کی ارزاں دستیابی ضروری ہے اور اس کے لئے نمایاں سوال اس گڈ گورننس ہے جس کے تحت عوام کو زندگی اجیرن محسوس نہ ہو اور وہ امن اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔