پاکستان کا نیا نقشہ: جنوبی ایشیا کا بدلتا چہرہ
سلام ہے کشمیریوں کو جو دہائیوں سے لہو کی زکوٰۃ دیتے آرہے ہیں لیکن اپنی آزادی سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ جس کم سن کے سامنے اس کے بے گناہ نانا کو شہید کردیاگیا، کیا یہ منظر اس کی معصوم آنکھیں بھول سکتی ہیں ؟ کیا وہ برہان مظفر وانی نہیں بنے گا؟ کب تک ہمیں ’’دہشت گردی‘‘کے لفظ سے ڈرایا جاتا رہے گا؟ کب تک ہم قتل ہوتے رہیں گے؟
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے سیدھا صاف سچ بولا۔ کہتے ہیں ’’یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے کہ کشمیر کے معاملے پرپختہ قانونی اور اخلاقی بنیادیں رکھنے کے باوجود پاکستان سفارتی محاذ پر کیسے ہار رہا ہے۔ہم جامع اور ہم آہنگ سفارتی حکمت عملی مرتب کرنے میں ناکام رہے جس کی مثالیں کمزور بیانات، جذبانی ملی نغمے، مرکزی شاہراہوں کے نام تبدیل کرنے اور کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کے لئے خاموشی اختیار کرنا ہے۔‘‘
ایک دل جلے نے تو حکومتی پالیسی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ایک منٹ کی خاموشی سے بھی بھارت نہ مانا تو پھر ہم مکمل خاموشی اختیار کرلیں گے۔‘‘مرد آہن سید علی گیلانی کی زندگی کا زیادہ حصہ نظربندی میں گزرا لیکن پانچ اگست دوہزار انیس کی تبدیلی یہ ہے کہ محبوبہ مفتی بھی دیگر بھارت نواز سمجھے جانے والے رہنمائوں کے ہمراہ نظر بند ہیں۔ بھارت سب مسلمانوں کے معاملے میں اب ایک ہی پالیسی اپناچکا ہے۔
بزدل اور ضمیر فروش دنیا اور اسلامی دنیا کے ’’برادران یوسف‘‘ نے بھی دیکھ لیا کہ کشمیری لہو دے رہے ہیں لیکن اس ظالم بھیڑئیے کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں جنہیں ’’برادران یوسف‘‘ سرمائے کا دودھ پلا رہے ہیں۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ دیکھتے ہوں گے کہ عرب کے ننگے پیر لیکن آج سرمائے پر پھولے ان کے ’’برادران یوسف‘‘ ’’بت کدے‘‘ بنارہے ہیں۔ کیا ان کے دل بھی پتھر ہوگئے ہیں؟ کھلی آنکھوں اپنا آپ قتل ہونے پر رقصاں وشاداں؟ ایسی قوم کیسے اللہ تعالی کے قہر سے بچ پائے گی؟ صرف دعا کی جاسکتی ہے۔ کوئی شک نہیں رہا کہ غزوہ ہند ہی بھارت کا علاج ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہیں یا اس راہ کے راہیوں کی راہ کے پتھر ہیں؟ ٹھیٹ پاکستانی دانشور عاصم اللہ بخش نے پاکستان کے نئے نقشے کے مضمرات پر لکھا ہے۔
1۔ اس بات کو اسی تناظر میں دیکھیے جو کچھ لداخ میں چل رہا ہے۔ چین نے لداخ کی صورتحال کی توجیہ یہ دی ہے کہ اب جبکہ 1993 اور 1996 والے حالات نہیں رہے تو تب کیے گئے معاہدات بھی قابل عمل نہیں رہے۔ ان کا اشارہ 5 اگست 2019کو بھارت کی جانب سے کشمیر اور لداخ پر کیے جانے والے یکطرفہ اقدامات کی جانب ہے۔ چین نے اب اپنا دعویٰ واپس 1959 کی اپنی پوزیشن اور مؤقف کی جانب پھیر دیا ہے۔ پاکستان نے بھی اپنی پوزیشن بدل کر واپس اس طرف کر دی ہے جو سر کریک اور کشمیر پرکی بنیاد پر ہے۔ stated position کے بجائےactual control ہے
2۔ اس نقشہ کے بعد اب پاکستان میں چھپنے والے کسی بھی نقشہ میں ابہام یا اس دُوئی کا امکان ختم کر دیا گیا ہے کہ کشمیر کا کتنا حصہ پاکستان میں دکھانا ہے، گلگت بلتستان کی پوزیشن کیا ہوگی وغیرہ۔ اب پاکستان میں اس حوالہ سے ایک ہی نقشہ استعمال ہو گا۔ 3۔ اس نقشہ کی بدولت پاکستان نہ صرف دنیا کو یہ پیغام دے سکے گا کہ اس کی کشمیر کے حوالہ سے کیا پوزیشن ہے، یا وہ اس کے بارے کتنا سنجیدہ ہے بلکہ اس سے ان منصوبوں پر بھی بہتر انداز میں کام ہو سکے گا جو ان علاقوں میں زیر تکمیل ہیں یا ان کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ پاکستان علاقوں میں اس لیے کام کر رہا ہے کیونکہ وہ انہیں اپنا حصہ سمجھتا ہے۔
4۔ بظاہر یہ ایک symbolic قدم ہے لیکن اس پر بھارت کے رد عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کے تزویراتی مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔ 5۔ ہمیں اگر اس اقدام سے اختلاف ہے، یا اسے ناکافی سمجھتے ہیں تب بھی یہ بات اہم ہے کہ ہماری آواز بھارت کی چیخوں سے نیچی رہے تاکہ دنیا کو بھارت کی چیخیں سنائی دے سکیں، ہماری نہیں۔
پاکستانی ارتغرل عمران خان کہہ رہے ہیں کہ یہ فتح کشمیر کی جانب پہلا قدم ہے ا ن شاء اللہ کشمیر بہت جلد آزاد اور پاکستان کا حصہ ہوگا۔ (ختم شد)