اپوزیشن کا سیاسی مستقبل
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن کی جماعتوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے-عمران خان کی حکومت کو پارلیمنٹ میں چند اراکین کی برتری حاصل ہے- اپوزیشن کی جماعتیں پارلیمانی طاقت ہونے کے باوجود تا حال عمران خان کی حکومت کیلئے کسی قسم کا چیلنج کھڑا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے مرکزی لیڈروں کو کڑے احتساب کا سامنا ہے- حکومت کے ادارے جو پہلے احتساب کے معاملے میں غیر فعال اور جمود کا شکار نظر آتے تھے آج کل پوری طرح فعال نظر آ رہے ہیں اور نیب کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ریاست کا طاقتور ادارہ جو سیاسی تحریکوں کے دوران کبھی نظر آنے والا اور کبھی نظر نہ آنے والا کردار ادا کرتا رہا ہے آجکل عمران خان کی حکومت کو مکمل طور پر سپورٹ کر رہا ہے اور اس کھلے تعاون کی وجہ سے اسے تنقید کا سامنا بھی ہے فوج اور حکومت دونوں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے اشتراک اور مفاہمت ہی واحد آپشن ہے-باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی لیڈروں کا اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ پر کنٹرول نہیں رہا- قابل ذکر تعداد میں اراکین اسمبلی اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ وہ جب خود کرپشن میں شامل نہیں ہوتے تو اپنے لیڈروں کو کرپشن کی وجہ سے احتساب سے بچانے کیلئے جیلوں کی صعوبتیں کیوں داشت کریں-دو بڑی سیاسی جماعتوں کو عوامی سطح پر بھی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی - پی پی پی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں مگر چونکہ کہ آصف علی زرداری کو سنگین نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے اس لیے ان کیلئے کھل کر مزاحمتی سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے - مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما میاں نواز شریف بیمار ہیں اور علاج کیلئے لندن میں موجود ہیں - قابل اعتماد ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے باہر جانے سے پہلے یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو پانچ سال کیلئے چلنے دینگے- مسلم لیگ نون کے دوسرے بڑے لیڈر میاں شہباز شریف کو سنگین مقدمات کا سامنا ہے اور وہ اپنی فطرت اور مزاج کے اعتبار سے محاذ آرائی کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے لہٰذا وہ محتاط سیاست کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بلاول بھٹو کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔اپوزیشن اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا نظر آتی ہے-
حکومتی جماعت کے لیڈروں کا دعوی ہے کہ مسلم لیگ نون اور پی پی پی پی کے فارورڈ بلاک بن چکے ہیں جن کی رونمائی موقع آنے پر کی جائیگی- اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو پارٹی کے نظم و ضبط کو یقینی بنانے اور اراکین پارلیمنٹ کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے سیاسی سرگرمیاں ضروری ہو جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے- بلاول بھٹو نے اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں تاکہ ان کو اعتماد میں لیا جا سکے اس سلسلے میں وہ بلوچستان کے لیڈر اختر مینگل مسلم لیگ نون کے لیڈر میاں شہباز شریف جمعیت علماء اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر چکے ہیں -ان ملاقاتوں میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عنقریب اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اجلاس بلایا جائیگا جو مشاورت کے بعد اے پی سی کا ایجنڈا طے کریگی- پی پی پی کے قابل اعتماد ذرائع کیمطابق اپوزیشن کے نئے الائنس کا نام ریئل ڈیموکریسی ریسٹوریشن الائنس رکھنے کی تجویز زیر غور ہے- اے پی سی فیصلہ کریگی کہ موجودہ حکومت کے خلاف ان ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے یا مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کیا جائے - اپوزیشن کی جماعتیں اشیائ ضروریہ کی کمر توڑ مہنگائی کے نعرے پر عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے پروگرام تشکیل دے رہی ہیں-اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں علامہ اقبال کے اس شعر کے مطابق ہوں گی-
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے اندر اور باھر ناک آؤٹ کرتے چلے جا رہے ہیں-انہوں نے پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ شائع کرکے اور پرجوش طور پر سڑکوں پر کشمیر کے سلسلے میں یوم استحصال منا کر اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے-نیب نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ایکٹوازم کا مظاہرہ شروع کردیا ہے افواہیں گرم ہیں کہ عنقریب حکومتی جماعت اور اپوزیشن کے کئی لیڈروں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا جائے گا ان حالات میں اپوزیشن کیلئے اے پی سی کا انعقاد ہی مشکل ہوجائے گا-عمران خان کو خارجہ امور میں شاندار کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں جن کی بناء پر وہ اندرونی طور پر بھی مستحکم ہو رہےؒ ہیں۔
بلاول بھٹو کی نظریں 2023کے انتخابات پر ہیں ان کی خواہش ہے کہ وہ اتنی پارلیمانی طاقت حاصل کرسکیں کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں-سیاسی ماہرین کے مطابق ان کی یہ خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک وہ سندھ کے صوبے کو پاکستان کے عوام کے سامنے ایک ماڈل صوبے کے طور پر پیش نہ کر سکیں- اگر وہ انتخابات سے پہلے کراچی اور سندھ میں نظر آنے والے میگا پراجیکٹس مکمل کر سکیں تو ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں -آصف علی زرداری کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ پارٹی کی قیادت کر سکیں لہذا اگر وہ عملی سیاست سے ریٹائر ہو جائیں اور بلاول بھٹو آزاد اور باختیار لیڈر بن جائیں تو یہ فیصلہ انکے سیاسی مستقبل کیلئے سود مند ہو سکتا ہے- اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا اور عمران خان کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کریگی البتہ پنجاب میں تبدیلی کے امکانات موجود ہیں- وزیراعظم عمران خان کو آنیوالے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے گورننس پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ غیر منتخب مشیروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے تجربہ کار منتخب اہل اور دیانت دار اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں - قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور وفاقی وزیر فخر امام کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہے ان کی اہلیت کے بھی سب لوگ قائل ہیں- انھوں نے گورننس کے سلسلے میں دنیا کے کامیاب نظاموں کا سنجیدہ مطالعہ کر رکھا ہے - وہ نیک نیت بھی ہیں اور ملک کی خدمت کر نے کا عزم رکھتے ہیں آج کل وفاقی وزیر خوراک ہیں اور شب و روز محنت کر رہے ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ انکی صلاحیتوں سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انہیں اپنی "کچن کیبنٹ " میں شامل کریں-