سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے اٹھائے اس سوال کہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش ٹرمپ کارڈ تھا یا ٹرمپ کا جواب یہ ہے کہ یہ ٹرمپ کارڈ بھی تھا اور ’’ٹریپ‘‘ بھی تھا۔ بھارتی وزیر اعظم موادی نے امریکہ سے مل کر ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ کھیلا، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں ایک صحافی سے کشمیر کے حوالے سے سوال کرایا گیا جواب میں صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کر دی اور اس کا سہرا مودی کے سر باندھ دیا جو بھارتی حکومت نے تردید کی صورت فوراً نوچ پھینکا جو امریکی صدر کی عالمی سطح پر بے عزتی تھی مگر امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کی بجائے معذرت خواہانہ اصرار کیا گیا حتیٰ کہ واشنگٹن میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے دفتر خارجہ نے امریکی صدر کے بیان کو جھٹلانے کی وضاحت بھی نہیں مانگی گئی اس سارے ڈرامے پر آئندہ نتائج کو سمجھے بغیر پاکستان میں بہت سے خوش فہم بالخصوص حکومت کے حامیوں نے بغلیں بجانی شروع کر دیں جبکہ ملک میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے دہائیاں دیتے رہ گئے۔ اللہ کے بندوں حقیقت حال کو سمجھو، مگر ’’عظیم سفارتی کامیابی‘‘ کا نشہ سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج بھیج کر وہاں ظلم و ستم کا سلسلہ تیز کر دیا۔ کنٹرول لائن پر گولہ باری ، فائرنگ حتیٰ کہ کلسٹر بم گرا کر سنگین ترین صورت پیدا کر دی۔ پاکستانی شہریوں کی شہادتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ملک میں سیاسی بالخصوص دفاعی تجزیہ نگار بار بار توجہ دلاتے رہے۔ مُودی سرکار کے ان اقدامات کا مقصد کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ اسے روکنے کے لیے پوری دنیا میں طوفانی سفارتی مہم چلائی جائے مگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مذمتی بیانات، وزیر خارجہ کی جانب سے اسلامی دنیا کے لیے بیکار ترین تنظیم او آئی سی اور امریکی جنبش رُبرو پر فیصلے کرنے والی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خطوط لکھنے کو فرض کی ادائیگی سمجھ لیا گیا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں حل طلب ہونے کے باوجود بھارتی حکومت نے کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ بنانے کا جو شرمناک کام کیا ہے اس کی مذمت کرنے کی بجائے امریکہ نے بھارت کو مکرانہ انداز میں سرزنش کی کہ ’’مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ کی جائیں‘‘ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ڈاکو سے کہا جائے جس شخص کو لوٹا ہے اس پر زیادہ تشدد نہ کیا جائے ۔ بھارت نے مشرقی پاکستان بھی امریکہ سے مل کر ہی بنگلہ دیش بنایا تھا۔ یہودی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا تب بھی پاکستانیوں کی مدد کے لیے ساتواں بحری بیڑا بھیجنے کا شوشہ چھوڑ کر انہیں خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا بلکہ کسی طرح بھارتی اقدام سے پہلے ’’ثالثی‘‘ کا چکمہ دیکر پاکستانیوں کو خوش فہمی کا شکار کیا گیا۔
بھارت 70 سال سے پاکستان دشمن اقدامات کر رہا ہے ہم مسلسل دوستی اور امن کا پرچم اٹھائے پھر رہے ہیں کہیں بھی ذرا اہمیت نہیں دی جا رہی۔ مودی نے پاکستان دشمنی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے نعرہ پر الیکشن جیتا تھا اور یہ کوئی پرلے درجے کا احمق ہی سوچ سکتا ہے کہ الیکشن جیت کر وہ ان نعروں سے پیچھے ہٹ جائے گا اس لیے مذاکرات اور دوستی کی بے ثمر تکرار کی بجائے مودی کی اس پوزیشن کو سامنے رکھ کر کشمیر کے حوالے سے خصوصی حکمت عملی بنائی تھی مگر اعتراف کر لینا چاہئے کہ اس حوالے سے ہم انتہائی عاقبت نا اندیشی کا شکار رہے حالانکہ ہم یہ ادراک رکھتے ہیں کہ اسلام ، مسلمان اور پاکستان دشمنی ہندو ذہنیت کی بنیاد ہے۔ بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کی گرفتاری آئی ایس آئی کا عظیم کارنامہ ہے لیکن اس سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا گیا بہرحال ماضی بعید یا ماضی قریب بلکہ حال میں بھی جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان پر نوحہ گری کی بجائے بہتر ہے فوری اور ثمر آور نتائج حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری دنیا کو بتایا جائے مودی حکومت کا یہ قدم اس لیے غیر قانونی اور غیر آئینی ہے کہ اول آئین کے آرٹیکل 370 کو صرف مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ہی ختم کر سکتی ہے اس کے لیے باقاعدہ الیکشن کرانا پڑے گا جو موجودہ حالات میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ دوسرے پاکستان حکومتی سطح پر صدر ٹرمپ سے رابطہ کر کے صاف کہہ دیا جائے کہ اگر امریکہ بھارت پر دبائو ڈال کر بھارت کو اس شرمناک حرکت سے باز نہیں رکھوائے گا تو پاکستان کسی صورت افغان امن عمل کا حصہ دار نہیں رہے گا۔ تیسرے بھارت کے ساتھ سرحدی تجارت فوری طور پر بند کر دی جائے۔ پاکستانی عوام قومی غیرت کا مظاہرہ کریں ۔ انڈین چیزیں خریدنی فوراً بند کر دیں۔ اگرچہ آئینی طور پر پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ہے مگر غیر ملکی فلم کے نام پر پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموں کی نمائش جاری ہے۔ پاکستانی عوام اس حوالے سے بھی غیرت کا مظاہرہ کریں۔ یہ فلمیں دیکھنا بند کر دیں۔ بھارتی اقدام کے حوالے سے سلامتی کونسل کے اجلاس کی طلبی اہم اقدام ہے لیکن دنیا کی زیادہ توجہ مبذول کرانے کے لیے ضروری ہے نئی دہلی سے پاکستانی ہائی کمشنر کو فوراً واپس بلایا جائے اور اسلام آباد سے بھارتی ہائی کمشنر کو بلاتاخیر واپس بھجوایا جائے ۔ یہ اقدام زیادہ عالمی توجہ کا مرکز بنے گا۔ کراچی سے شمالی وزیر ستان تک اور گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کشمیریوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ لاہوری روایتی انداز میں اٹھ کھڑے ہوں جی ٹی روڈ کا پہرہ دیں اور کسی مال بردار ٹرک کو واہگہ بارڈر جانے اور وہاں آنے کی اجازت نہ دیں۔ انشااللہ بہت جلد مودی کا دماغ ٹھکانے پر آ جائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024