سفید روئی سے لاؤ اب تم بھی انقلاب
میں نے ایک ٹیکسٹائل مل کی ایک رہائشی کالونی میں آنکھ کھولی- میرا اور روئی کا آپس میں سدا کا ساتھ رہا ہے- میرے والد صاحب اب بھی ایک جیننگ مل چلاتے تھے جو کہ پچھلے پانچ برس سے حکومتی ستم ظریفی کا شکار بند پڑی ہے- وہ کہتے تھے کہ روئی وہ ریشہ ہے جو سفید کپڑے پہناتا ہے – اگر یہ ہن بن کے برسے تو مالک کے آنگن میں دولت کے وہ انبار لگاتا ہے کہ اس کے سفید کڑکتا لباس زیب تن ہوتا ہے اور وہ سرمایہ دار بنا خوب اتراتا ہے-اگر یہ منہ موڑ لے تو صنعت کار کی قسمت میں سفید کفن میں لپٹی موت بن جاتا ہے- اب جب کہ پاکستان میں یہ صنعت رو بہ زوال ہے تو میں کیسے کہوں کہ اس پہ توجہ کے بغیر ہم پھر عالمی سطح پہ وہ عزت پا سکتے ہیں کہ جس میں اقوامِ عالم میں ہم کبھی ممتاز تھے- ہمارا دھاگہ عالمی منڈی میں ہاتھ و ہاتھ بکتا تھا – صنعتوں کی کمی اور گرانی نے ان صنعتوں کوتالے لگا دیے جس کی سب سے بڑی مثال بورے والا ٹیکسٹائل ملز بھی ہے جس کے بند ہوئے دروازے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر گئے ہیں – مل مالکان کو پیسہ چاہیئے تھا سو انہوں نے اسے بند کیا اور اپنا مبتادل کاروبار جما لیا کسی نے نہ سوچا کہ اس سے منسلک علاقے کی خوشحالی جو اس صنعت ہی کی بدولت ہے وہ اس کے مزدوروں کی وہ آس بھی چھین لے گی جس سے بندھا وہ اپنی خاندانی ذمہ داریاں بہ احسن نبھا رہا ہے -ہماری بے حسی کہ ہم نے ٹیکسٹائل صنعت پہ زوال آتے ہی اس فصل سے بھی منہ موڑ لیا اور حاکموں نے بھی کپاس کی فصل پیدا کرنے والی زمینوں کے سینوں میں گنا گاڑھ دیا- چینی بنانے کے کارخانے حاکمِ وقت کے اپنے تھے سو گنے کی بے توقیری نے ان کی جہاں چاندی کی وہیں کسان گھٹنوں کے بل ایک جائے امان ڈھونڈتا نظر آیا - نئے انتخابات کے بعد جہاں ڈالر کی قیمتِ خرید میں خاطر خواہ کمی ہوئی وہیں صنعت کاروں نے بھی اپنی امیدیں نئی حکومت سے لگا لیں وہ بھی اس خیال کی جوت کے ساتھ اپنے کارخانوں کی چمنیوں سے اگلتا دھواں اور چلتے پہیوں کے خواب کے ساتھ مسرور ہیں کہ اب ایک بار پھر دن پھرنے والے ہیں - کپاس کی قیمت میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی خریداری میں دلچسپی بڑھ رہی ہے – پچھلے سال کپاس کی قیمت سات ہزار فی من کے لگ بھگ تھی جو انتخابات کے دنوں میں بڑھ کے دس ہزار فی من تک پہنچ چکی تھی – ڈالر کی قیمت میں کمی کے ساتھ اس میں تقریبا" ایک ہزار روپے کی کمی اس بات کا عندیہ بھی ہے کہ اس سے تاجر کو کپاس کی خریداری میں اور مدد ملے گی کیونکہ ملک میں کپاس کی کمی کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے کپاس کی درآمد کے لئے دوسرے ممالک سے رابطے بھی شروع کر دیے ہیں- یہ معاہدے چین ، امریکہ اور ارجنٹائن سے ہو رہے ہیں جس کی بدولت ماہِ ستمبر تک روئی کی بیلیں پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گی اور پاکستان تقریبا" ایک لاکھ بیلز کے لگ بھگ روئی درآمد کرے گا- پچھلی حکومت نے روئی کی درآمد پہ دس فیصدی ٹیکس لگا دیا تھا – ملک میں کپاس کی کمی تھی سو ٹیکسٹائل ملز مالکان میں کچھ ابتری کی فضا تھی لیکن نئی حکومت کے متوقع وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے جب سے یہ پیغام دیا ہے کہ صنعتوں کے خام مال پہ ڈیوٹی کم کریں گے تو تاجروں کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ یہ دس فیصدی ٹیکس بھی کالعدم قرار دے دیا جائے گا – پاکستان کے معاشی میدانوں میں پھیلی یہ ویرانی جو پچھلے مالی سال میں عروج پہ تھی اب رو بہ زوال ہوگی- پاکستان جس کو اربوں ڈالرز کا خسارہ در پیش ہے اس کی اس ٹوٹی کمر پہ انشائ اللہ یہ صنعتی ترقی ضرور مرہم رکھے گی- پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کا کسان محنتی بھی اور جانفشانی میں اپنا کوئی ثانی بھی نہیں رکھتا - اسے اگر سڑک پہ احتجاج کرنے کی بجائے کھیتوں میں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں تو وہ پھر اس میدان میں ایک انقلاب برپا کر دے گا – اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے ممالک سے شراکت داری اور دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جائے- روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے کپاس کی جو برآمد جاری ہے جب روپے کی قدر میں اضافہ اور اس کی ملکی کھپت ہوگی تو یہ روئی خام مال کی صورت ہمارے گردشی قرضے بھی کم کرے گی جو اس وقت ایک ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں – اب منافع خوروں پہ بھی ایک نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ خود ساختہ قیمتوں کا تعین ناممکن بنایا جا سکے اور ایک جیسی مستحکم قیمتیں کپاس کے خریدار کو اپنے مستقبل کے لائحہ عمل اور کاروباری منصوبہ بندی میں مدد دے سکیں - نئی منڈیوں کی تلاش اور سی پیک کی تکمیل کے بعد دور دراز ممالک سے بھی تجارت کے روابط قائم کیے جائیں – زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کو قابلِ عمل بنا کے اس کے اداروں کی خوب اعانت کی جائے – نئے بیج اور فی ایکڑ پیداوار کو دوسرے ممالک کے ہم پلہ بنایا جائے- یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ زرعی انقلاب ہی مضبوط اور خوشحال پاکستان کا ضامن ہے- زرعی میدانوں میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور بڑے کسانوں کیلئے ریفریشر کورسز کا آغاز انہیں ملکی ضرورت سے ہم آہنگ کرے گا اور اس بھیڑ چال کو ختم کرے گا جو ایک سال کی زرعی جنس کی اچھی فروخت ہر کسی کو وہی اگانے پہ مصر کر دیتی ہے- کپاس کے علاقے میں گنے کی فیکٹریاں منتقل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور انہیں کسی رو رعایت کے بغیر ان علاقوں میں پہنچایا جائے جہاں گنے کی پیداروار ملکی سطح اور ضرورت کے مطابق درست ہے – میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک دن اسی سفید روئی سے ملکی میں معاشی استحکام آئے گا اور ہم پھر دنیائے عالم میں ایک اچھے اور توانا ملک کی صورت ابھریں گے –
٭٭٭٭٭