ٹرمپ انتظامیہ کی پاک چین مالیاتی تعلقات میں مداخلت
چائنہ پاکستان اکنامک کا ریڈور منصوبے پر عوامی جمہوریہ چین اور اس کے مالیاتی اداروں کی 48بلین ڈالر کی سرمایہ کاری خطے میں معاشی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے جہاں امن و استحکام کا دور واپس لا رہی ہے ،وہیں امریکی پالیسی سازوں کے زیر اثر ٹرمپ انتظامیہ ان اقدامات کو مستقبل کے عزائم کی راہ میں اپنے لئے رکاوٹ بھی سمجھ رہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دو حکومتوں کے ادوار میں سی پیک منصوبوں پر جس تسلسل کے ساتھ کام جاری ہے اول تو اندرون ملک مخالف عناصر نے ان منصوبوں پر قومی سلامتی کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، باقی رہی سہی کسر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے انٹرنیشنل مانٹری فنڈ کو پاکستان و چین کے مالیاتی تعلقات میں مداخلت کرکے پوری کردی ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے دونوں ملکوں کے مالیاتی امور پر آئی ایم ایف کو دی گئی ڈکٹیشن پر چین کے ترجمان گینگ شوانگ نے معمول کی پریس بریفنگ میں واضح کیا ہے کہ چین کے مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ قرض کی واپسی کے معاملات کو پاکستان بہتر سمجھتا ہے۔پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج کے امور پر مریکہ کو اسے ڈکٹیشن دینے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں گزشتہ ایک برس میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جس طرح کمی واقع ہوئی ہے چین کی حکومت دوست ملک کی مالی اعانت میں کسی طرح پیچھے نہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف رکن ممالک کو طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق سہولیات فراہم کرتا ہے تاہم ایک ایسے مرحلے میں جب ملک میں ایک نئی حکومت بننے جا رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے نئے بیل آئوٹ معاشی پروگرام پر جاری ہونے والے بیان کو سیاسی اغراض و مقاصد کا پیش خیمہ تصور کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ اس ضمنی میں اسے کوئی باضابطہ درخواست موصول ہوئی ہے نہ پاکستان کی جانب سے کسی نمائندے نے اس سے رابطہ کیا ہے لیکن رائٹر کی خبر میں آئی ایم ایف کے 12بلین ڈالر کے بیل آئوٹ پروگرام کو بنیاد بنا کر امریکی انتظامیہ عوامی جمہوریہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر براہ راست جبکہ سی پیک منصوبوں پر بالواسطہ غم و غصہ نکال رہی ہے۔ پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین نے عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ سے زیادہ ممالک کے درمیان توازن تجارت کے اصول پر زور دیتے ہوئے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ تنازعات میں الجھنے کی بجائے اسے جنوبی ایشیاء میں شراکت، علاقائی امن و استحکام اور خوشحالی کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔
امریکی انتظامیہ نے عالمی اقتصادی سرگرمیوں میں ایک مستقل کشمکش کو ہوا دے رکھی ہے چین کی مصنوعات پر اربوں ڈالر کے نئے درآمدی ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں۔ یوں دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے مابین تنازعہ شدید تر ہو گیا ہے۔ چین نے بھی اپنی برآمدات پر نئے امریکی درآمدی ٹیکس لگائے جانے کے بعد اپنے ہاں امریکی درآمدات پر34 ارب ڈالر مالیت کے اضافی محصولات عائد کر دیے ہیں۔چینی دارالحکومت سے ملنے والی مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق بیجنگ نے کہا ہے کہ اس تجارتی جنگ کا آغاز امریکا نے کیا تھا، جس کے ساتھ ’چین کو جوابی حملے پر مجبور‘ کر دیا گیا تھا۔امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے جس کے بعد دوسرے نمبر پر چین کا نام آتا ہے۔ ماہرین کے مطابق واشنگٹن اور بیجنگ کے ایک دوسرے کے خلاف مجموعی طور پر 68 ارب ڈالر مالیت کے ان اقدامات سے ایک ایسی بڑی تجارتی جنگ شدید تر ہو گئی ہے، جو عالمی معیشت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔چینی وزارت تجارت کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’امریکا نے ایسے اقدامات کی ابتدا کر کے ’انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جنگ‘ کا خطرہ مول لیا ہے، جس سے تجارتی منڈیاں بھی متاثر ہوں گی۔ بیجنگ امریکا کے ساتھ اپنے اس تجارتی تنازعے کو عالمی ادارہ تجارت یا ڈبلیو ٹی او میں بھی لے کر جائے گا۔
چین کی ریاستی کونسل کے پریس ڈیپارٹمنٹ نے چین اور ڈبلیو ٹی او نامی وائٹ پیپر جاری کیا۔ وائٹ پیپر میں عالمی تجارتی تنظیم میں چین کی شمولیت اور چین کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کی صورتحال، کثیرالطرفہ تجارتی نظام میں شمولیت کے حوالے سے چین کے پالیسی بیان ، چین میں اصلاحات کیلئے اقدامات اور ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد چین کی جانب سے دنیا کے لیے خدمات کی فراہمی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مذکورہ وائٹ پیپر چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے بعد چین کی خدمات کے حوالے سے نہ صرف لوگوں کی آگاہی کا اہتمام ہے بلکہ یہ دستاویزچین کی جانب سے ڈبلیو ٹی او کی مرکزی حیثیت سے کثیرالطرفہ تجارتی نظام کی غِیر متزلزل حمایت کے حوالے سے بھی اہم ہے۔
ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے ابتدائی مرحلے میں چین کی زیادہ تر صنعتیں عالمی مسابقتی عمل میں شریک رہی ہیں اور انہیں بڑے چیلنجز کا بھی سامنا رہا ہے ۔چین کی متعدد صنعتیں معیار اور ترقی کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں سے کافی پیچھے تھیں اور چین کا برآمداتی ٹیکس بھی کافی زیادہ تھا۔ لہذا چین نے اس ضمن میں اصلاحات کے حوالے سے نمایاں اقدامات کیے ہیں۔اگر چہ عالمی سطح پر چینی اقدامات کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا لیکن ڈبلیو ٹی او کے زیادہ تر اراکین نے چین کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔سن دو ہزار میں چین برآمدات کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک تھا اور درآمدات کے لحاظ سے آٹھواں بڑا ملک تھا۔ ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے سترہ سالوں کے دوران آج چین برآمدات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور درآمدات کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ملک اور بیرونی ممالک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ چین کو اپنی کھلی پالیسی کی بدولت اقتصادی خوشحالی حاصل ہوئی ہے اور چین کی جانب سے عالمی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دی گئی ہیں۔ اس کے برعکس خاص طور پر امریکہ کی جانب سے عالمگیریت مخالف رجحان اور تجارتی تحفظ پسندی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا بھرپور جواب واضح کرتا ہے کہ چین یکطرفہ تجارت کے احساس تحفظ کی سخت مخالفت کرتا ہے، اور کثیرالطرفہ تجارتی نظام اور شراکت دار ی کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
(چائنا ریڈیو انٹرنیشنل ،میگزین رپورٹ)