تنازعات کے حل میں چین کا کردار
پاکستان اور افغانستان کا معاملہ ہو یا جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کا ، بات فلسطین اور اسرائیل کے جھگڑے کی ہو یا پھر حل طلب بین الاقوامی تنازعات امریکہ کا ان مسائل کے حل میںمصالحتی قد گھٹتا اور چین کا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی معاشی حقیقتیں ہیں لیکن امریکہ 'یونیلیٹرلِزم' یا اپنے خول میں سکڑتا نظر آتا ہے جب کہ دوسری طرف دیوارِ چین سے بلند ہو کر چین ہمہ گیریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔معاملہ افغانستان کا ہو تو چین افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے قیام امن کا متلاشی نظر آتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنا خود چین کے اِس خطے میں بڑھتے ہوئے معاشی مفادات کے لیے بھی ضروری ہے۔اس کے برعکس امریکہ کی پالیسیاں کسی طرح بھی افغان مسئلے کو حل کی طرف لے جاتی نظر نہیں آتیں۔ افغانستان سے انخلا کے اپنے وعدوں کے برخلاف امریکہ نے نا صرف افغانستان میں اپنی فوج بڑھا لی ہے بلکہ افغانستان میں وہ ایک بڑا فوجی اڈہ تعمیر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی کے یہ الزامات بلا شبہ اپنی جگہ موجود ہیں کہ ’امریکہ خفیہ طور پر افغانستان میں نام نہاد دولت اسلامیہ کو پاؤں جمانے میں مدد کر رہا ہے‘۔امریکہ کی جانب سے پاکستان پر سفارتی دباؤ مسلسل بڑھانے اور 21 کروڑ نفوس پر مشتمل قوم کی معاشی مشکلات میں اضافہ کرنے سے کسی بھی طرح خطے میں امن کے قیام میں مدد نہیں مل سکتی۔پاکستان اور بالخصوص افغانستان کے اصل مسائل غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور وسائل کی کمی ہیں ۔ ان مسائل کا حل صرف اور صرف خطے کی مجموعی معاشی ترقی، سرمایہ کاری، وسائل کی فراہمی میں ہی مضمر ہے۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ناتمام جنگ کو دیکھیں تو ڈونلڈ ٹرمپ اس آگ کو بجھانے کے بجائے مسلسل تیل چھڑکتے نظر آتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی کوریا کی قیادتیں جب مذاکرات پر مائل نظر آتی ہیں اور چین اس میں مصالحت کاری کرنے پر تیار ہے، عین اس وقت امریکہ جھگڑے کو بڑھانے کی بات کرتا نظر آ رہا ہے۔پورے عالمی منظر نامے پر امریکہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس کا نظارہ دنیا نے پچھلے مہینے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اس کے بعد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دیکھا۔برطانیہ اور یورپ جیسے دیرینہ اور انڈیا جیسے نئے دوست بھی یروشلم کے معاملے پر جنرل اسمبلی میں امریکہ سے دور کھڑے نظر آئے۔ 1948ء میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے امریکہ کو اس تنازع میں امن کے بیوپاری کا جو مقام حاصل تھا وہ بھی یروشلم میں سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان کے بعد دفن ہو گیا۔یہ وہ فیصلہ تھا جہاں امریکہ کے اپنے قومی مفاد کو یہودی اور اسرائیلی لابی کے مفاد اور منشا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس فیصلے سے ایک مرتبہ پھر یہ عیاں ہو گیا کہ امریکہ میں پالیسی سازی پر کون حاوی ہے اور یہ کس کے زیرِ اثر ہے۔سیاسی اور سفارتی تنازعات کے علاوہ ماحولیات جیسے دنیا کے دیگر مسائل پر بھی امریکہ باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کھڑا نظر آتا ہے۔ دنیا کے 195 ممالک کے اتفاق رائے سے 2015ء میں منظور کیے جانے والے پیرس معاہدے سے نکلنے کا ٹرمپ کا فیصلہ دنیا کے لیے ایک انتہائی مایوس کن قدم تھا۔’پوسٹ نیو ورلڈ آرڈر‘ میں امریکہ کی یک طرفہ پالیسیاں اور چین کے چار ہمہ گیر پھیلتے ہوئے معاشی مفادات اور بڑھتا ہوا اثر و رسوخ عالمی استحکام کا باعث بنتا ہے یا دنیا کو مزید غیر مستحکم اور خطرناک جگہ بنا دیتا ہے۔چین اور امریکہ کے رویوں میں بڑی تبدیلی کی ایک وجہ تو دونوں ملکوں کی موجودہ قیادت ہے اور امریکی صدر کی تاجرانہ سوچ ہے لیکن دراصل اس کی جڑیں ان دونوں عالمی طاقتوں کے نظام اور طرز حکمرانی تک پھیلی ہوئی ہیں۔امریکی نظام میں اہم خارجہ اور اندرونی معاملات میں پالیسی سازی کے عمل پر یہودی لابی، اسلحہ سازاداروں، گن بوٹ لابی اور تیل کی پیداواری صلاحیت سمیت مخصوص مفادات کا اثر و رسوخ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس اثر و رسوخ اور دباؤ کی بنیادی وجہ سرمایہ ہے۔ باالفاظ دیگر امریکی پالیسیوں کا تعین سرمایہ کرتا ہے اور بعض اوقات سرمائے کے مفاد پر ملکی مفاد سے بھی صرف نظر کر لیا جاتا ہے۔اس کے بالکل برعکس چین میں پالیسی سازی کی سطح پر سرمائے کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے اور فیصلے صرف اور صرف قومی مفاد میں کیے جاتے ہیں۔بین الاقوامی امور کے ایک ماہر چینی دانشور نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں اس صورت حال کو یوں بیان کیا تھا ’چین میں پارٹی تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن پالیسی تبدیل ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں پارٹی تبدیل ہو سکتی ہے لیکن پالیسی تبدیل نہیں ہوتی‘۔
( بی بی سی اردو)