قوم میں پانی کی قلت کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے
نگران وفاقی وزیر کا کا لاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پیشرفت اور آنیوالے حکمرانوں کیلئے چیلنج کا عندیہ
نگران وفاقی وزیر اطلاعات و آبی وسائل بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم سے متعلق صوبوں میں غلط فہمیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس بریفنگ کے دوران کالاباغ ڈیم کی وکالت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اس لئے ہمیں پانی کے استعمال میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں ملک میں آبی بحران کے حل کیلئے دس تجاویز زیرغور ہیں۔ بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی دہلی نے دونوں ممالک کے مابین ہونیوالے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے‘ معاہدے کے تحت دریائے جہلم‘ چناب اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے مگر بدقسمتی سے ہم معاہدے کے بعد صرف دو ڈیم ہی بنا سکے۔ انہوں نے قبل ازیں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو پانی کی قلت اور توانائی جیسے مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر سمیت دس تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کالاباغ ڈیم بہت ضروری تھا جس پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ ہو سکتا ہے کالاباغ ڈیم پر غلط فہمی پیدا کرنے میں غیرملکی عناصر کا ہاتھ ہو لیکن جہاں ہم کالاباغ ڈیم نہیں بناسکے‘ وہاں باقی ڈیم کیوں نہیں بنے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیمز کے نتائج 25 سال بعد نظر آتے ہیں۔ ڈیم نہ بننا آنیوالی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے‘ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور پھر اسکی تعمیر شروع کردی جائے۔ سی پیک کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا استحقاق ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسی تشکیل دے‘ کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں جب بھی پانی کی قلت سے متعلق مسائل سامنے آتے ہیں اور مون سون کے دوران سیلاب کی تباہ کاریاں شروع ہوتی ہیں تو کالاباغ ڈیم کی اہمیت کا احساس شدت سے اجاگر ہونے لگتا ہے۔ ہمارے لئے یہ تلخ حقائق تو اب محض قصہ کہانی بن چکے ہیں کہ ہم نے بھارت کے ساتھ طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اپنے حصے میں آنیوالے تین دریائوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جبکہ اس معاہدے کی رو سے باقی تین دریا ستلج‘ راوی اور بیاس مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دیئے گئے تھے جن کے پانی کا ایک قطرہ بھی ہم اپنے فائدے کیلئے بروئے کار لانے کے مجاز نہیں۔ ہمارا المیہ تو یہی ہے‘ جس کی بیرسٹر علی ظفر نے بھی نشاندہی کی ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں جن دریائوں کے پانی کے استعمال کا ہمیں استحقاق دیا گیا‘ ہم ان سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے جبکہ بھارت نے ہماری جانب سے ان دریائوں پر کوئی ڈیم تعمیر نہ کئے جانے کے باعث موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان دریائوں کو بھی اپنے تسلط میں لا کر ان پر چھوٹے بڑے ڈیڑھ سو کے قریب ڈیم تعمیر کرلئے۔ ہمارے حکمران اور متعلقہ ادارے اس وقت بیدار ہوئے جب بھارت نے بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی چنانچہ اسکے ڈیزائن پر ہماری جانب سے اٹھایا گیا اعتراض عالمی بنک نے اس لئے مسترد کر دیا کہ اب ڈیم کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ یہی صورتحال ہمیں اب کشن گنگا ڈیم کے معاملہ میں درپیش ہے کیونکہ بھارت اسکی تعمیر بھی تقریباً مکمل کرچکا ہے جس کے بعد ہمارے اداروں کو اسے عالمی بنک میں چیلنج کرنے کا خیال آیا ہے چنانچہ ہم اس ڈیم کی تعمیر رکوانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔
آج پانی کی قلت ہمارے لئے بلاشبہ خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کیونکہ آبی ارضیاتی ماہرین اپنی سروے رپورٹوں میں واشگاف الفاظ میں باور کراچکے ہیں کہ ہماری ارض وطن پر زیرزمین پانی کی سطح بہت تیز رفتاری کے ساتھ نیچے کو جارہی ہے اور یہ صورتحال برقرار رہنے کا امکان ہے جس کے باعث ہم آنیوالی دہائی میں پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے تھر اور چولستان کے علاقے پہلے ہی پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں جہاں زیادہ تر اموات پانی کی قلت کے باعث ہی ہورہی ہیں جبکہ وہاں کی دھرتی بھی بنجر ہوتی جارہی ہے۔ اگر پانی کی قلت کے باعث کل کو ایسی ہی کیفیت ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پیدا ہوگئی تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا کیا حشر ہوگا۔
ان تلخ حقائق کی بنیاد پر تو ہمیں پانی ذخیرہ کرنے کا ہر دستیاب ذریعہ اور تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئیں تھے اور ایوب دور میں ڈیزائن کیا گیا کالاباغ ڈیم تعمیر کرلینا چاہیے تھا مگر ہمارے کرم فرمائوں کو پانی کی قلت کے باعث پیدا ہونیوالے ممکنہ مسائل کا احساس تک نہ ہوا اوروہ کان لپیٹے خواب غفلت میں پڑے رہے۔ آج نگران وفاقی وزیر آبی وسائل کو کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں بیرونی عناصر کے ہاتھ کارفرما نظر آرہے ہیں تو انہیں کھل کر بتانا چاہیے کہ یہ بیرونی ہاتھ کس کے ہیں جنہوں نے ہماری دھرتی کو بنجر بنانے والی سازش میں اس ارض وطن کے غداروں کو اپنے ساتھ ملایا اور انہیں کالاباغ ڈیم کی مخالفت پر مامور کیا۔ یہ حقیقت تو اب اقوام عالم میں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمیں آبی قلت کی جانب دھکیلنے والی سازش میں ہمارے دشمن بھارت ہی کا ہاتھ ہے جس نے اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے سالانہ چھ ارب روپے کے بجٹ کے ساتھ ایک فنڈ قائم کیا جس کے ذریعے کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دینے کیلئے ہمارے ملک کے غداروں میں بھاری رقوم تقسیم کی گئیں چنانچہ اسی بھارتی سازش کی بنیاد پر صوبہ سرحد (خیبر پی کے) سے کالاباغ ڈیم کو ڈائنامائیٹ مار کر تباہ کرنے کی دھمکیاں ملنے لگیں اور صوبہ سندھ میں قوم پرستوں کے لبادے میں چھپے ملک دشمن عناصر کی جانب سے یہ دھمکیاں دی جانے لگیں کہ کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سازش کے تحت ہی کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنایا گیا اور پھر اس پر قومی اتفاق رائے کا شوشہ چھوڑا گیا جو ’’نہ 9من تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی‘‘ کے مصداق کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ قومی سیاست میں مفادات کے اسیر سیاست دانوں نے ہمیشہ کالاباغ ڈیم پر ہی مفاہمت کی جو 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر کالاباغ ڈیم کی مخالف اے این پی کو یہ بڑھک لگانے کا موقع فراہم کرگئی کہ ہم نے کالاباغ ڈیم کی فائل آج دریائے سندھ میں ڈبو دی ہے۔ مفاداتی مفاہمت والی یہی سیاست مسلم لیگ (ن) کے دوراقتدار میں غالب رہی جبکہ اسی مفاداتی سیاست کے دبائو میں آکر جرنیلی آمر مشرف بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق اپنے اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اس مفاداتی سیاست کی یوں اسیر ہوئی کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا کسی بھی جانب سے تقاضا ہوتے ہی اسکے قائدین کانوں کو ہاتھ لگاتے نظر آتے رہے۔ اس دور میں چیئرمین واپڈا ظفرمحمود نے جرأت رندانہ سے کام لیا اور کالاباغ ڈیم کی افادیت اجاگر کرنے کیلئے قومی اخبارات میں اپنے مضامین کی سیریل کا سلسلہ شروع کردیا جس پر حکمران مسلم لیگ (ن) کو پیپلزپارٹی کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور جب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں چیئرمین واپڈا ظفرمحمود کو ملازمت سے برخاست کرنے کا تقاضا کیا تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس تقاضے کے آگے ڈھیر ہوکر ظفرمحمود کو فارغ کرنے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کالاباغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے کیلئے کسی مدد کی ضرورت ہوتی تو اس کا اہتمام نوائے وقت گروپ کی جانب سے پہلے ہی قومی ریفرنڈم کا انعقاد کرکے کیا جاچکا تھا جس میں خیبر پی کے سمیت ملک کے تمام صوبوں کی جانب سے 99.99 فیصد آراء کالاباغ ڈیم کے حق میں آئی تھیں۔ مگر اس وقت کے حکمران کالاباغ ڈیم پر مفاداتی سیاست کے اسیر رہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پانی کی شدید قلت کے احساس کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تو اس ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دینے کی ملک دشمنی پر مبنی ذمہ داری اٹھانے والے عناصر نے انہیں بھی قومی اتفاق رائے کی الجھن میں الجھا دیا۔ انکی جانب سے ڈیمز کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ میں فنڈ قائم کیا گیا ہے تاہم اب کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق انکے عزم کا شدومد کے ساتھ اظہار ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اب آبی وسائل کے نگران وفاقی وزیر کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی اہمیت اس وقت اجاگر کی جارہی ہے جب نگران حکومت کے اپنے محض چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ اگر نگران سیٹ اپ کے آغاز ہی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پیش رفت کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیا ہوتا تو سیدعلی ظفر آج محض دس نکاتی تجاویز پیش نہ کرتے بلکہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ عملی قالب میں ڈھلنے کی قوم کو نوید سنا رہے ہوتے جس کیلئے سابق چیئرمین واپڈا ظفرمحمود جو پنجاب کی نگران کابینہ کے رکن بھی ہیں‘ کی معاونت سے کالاباغ ڈیم کی دریابرد کرائی گئی فائل کو باہر نکلوا کر اسکی تعمیر کیلئے ٹھوس بنیادیں تو رکھ دی جاتیں۔ اب نگران وفاقی وزیر آنیوالے حکمرانوں کیلئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا چیلنج چھوڑ کر جارہے ہیں جنہیں اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔
اگر سید علی ظفر نگران سیٹ اپ کے رخصت ہوتے ہوتے وفاقی کابینہ سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبہ کی باضابطہ طور پر منظوری دلاجائیں تو آنیوالے حکمرانوں کیلئے کچھ آسانی ضرور پیدا ہو جائیگی۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفین کا آبی قلت کے مسائل کو شدومد کے ساتھ اجاگر کرکے ہی منہ بند کیا جاسکتا ہے اس لئے آج پانی کی قلت سے پیدا ہونیوالے تمام ممکنہ مسائل کے حوالے سے قوم میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب پوری قوم کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بیک آواز تقاضا ہوگا تو اسکے مخالفین کیلئے اپنی جان بچانا بھی مشکل ہو جائیگا اس لئے نگران حکمران جاتے جاتے کم ازکم کالاباغ ڈیم کی ٹھوس بنیاد تو رکھ جائیں‘ قوم انکی گورننس اور اتھارٹی کے ڈنکے بجاتی رہے گی۔