بدھ ‘ 25؍ذیقعد 1439 ھ ‘ 8؍ اگست 2018ء
آزاد ایم پی اے رانا لیاقت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے
اس وقت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے اس اکلوتے رکن پنجاب اسمبلی کا شکریہ پوری مسلم لیگ بھی ادا کرے تو کم ہے۔ یہ وہ کونج ہے جو اپنی ڈار سے الگ ہو کر ان کے ساتھ آن ملی ہے۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے آزاد ارکان اسمبلی ہمیشہ شاہی چھتری تلے پناہ لیتے ہیں۔ ڈوبتی نائو میں کوئی بھی سوار نہیں ہوتا۔ ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے آزاد ارکان نے یہ بات سچ ثابت کی ہے۔ تمام آزاد ارکان نے پی ٹی آئی کا سرخ و ہرا پٹا گلے میں ڈال لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جسے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی وہ انہیں ساتھ ملانے میں ناکام رہی۔ اس کی وجہ مسلم لیگ والے ہی جانتے ہوں گے۔ اگر بات خرید و فروخت کی ہے تو مسلم لیگ (ن) میں بھی بڑے بڑے بیوپاری موجود ہیں۔ انہوں نے گرہ ڈھیلی کیوں نہیں کی۔ تجوریوں کے منہ کیوں بند رکھے۔ مال زر کی انہیں کیا کمی تھی طیارے ان کے پاس بھی کافی ہیں۔ خیر سے ایک صاحب کے پاس تو پوری ائر لائن بھی ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی کہ وہ جہانگیر ترین کا‘ علیم خان کا توڑ کرتی۔ کیا مال و دولت صرف تجوریوں یا بنکوں میں رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ انہیں ایسے نازک موقعوں پر ہی ہوا لگانے کے لئے باہر نکالا جاتا ہے۔ یہ سینکڑوں ارب پتی ارکان اسمبلی اور وزیر مشیر کیا صرف مال بنانے کے لئے پالے گئے تھے کہ آزاد ارکان کو ساتھ نہ ملا سکے۔ رانا لیاقت تو لگتا ہے نظریاتی طور پر مسلم لیگی ہیں جبھی تو مسلم لیگ (ن) میں آئے ورنہ ہارے ہوئے لشکر میں کون جاتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
نیپرا کو 20 ارب قرض صارفین کے بلوں میں شامل کرنے کی اجازت مل گئی، ذرائع
نگران حکومت کی زیر نگرانی یہ عوام دشمن فیصلے کوئی روک کیوں نہیں رہا۔ عمران خان خدارا اس طرف بھی توجہ دیں۔ ورنہ یہ بجلی بلوں میں اضافہ آپ کی نئی حکومت کے گلے ڈالا جائے گا۔ نگرانوں کی چالاکیاں تو دیکھیں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو اپنا قرضہ اور اس کا سود ادا کرنے کے لئے عوام کی جیبیں کاٹنے کی اجازت دے دی۔ صارفین پہلے ہی بجلی بلوں کے ہاتھوں پریشان حال ہیں۔ اب سرچارج کی مد میں یہ 20 ارب روپے بھی ان کا خون نچوڑ کر حاصل کئے جائیں گے۔ بجلی فراہم اور وصول کرنے والی کمپنیاں آخر خود کس مرض کی دوا ہیں۔ ملک بھر میں بجلی چوری کرنے والے لاکھوں صارفین کو پکڑ کر ان پر بھاری جرمانے ڈال کر یہ رقم وصول کیوں نہیں کرتے۔ کیا ان سے ملنے والا ماہانہ بھتہ بند ہونے کا خوف ہے یا سیاسی دبائو ہے۔ چیف جسٹس صاحب ہی عوام کی آخری امید ہیں وہ ہی اس دھونس دھاندلی کا نوٹس لیں تو عوام اس ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھانے سے بچ سکتے ہیں۔ کرے کوئی بھرے کوئی، ملک میں سالانہ اربوں روپے کی بجلی چوری ان محکموں کے ملازمین کی رضامندی سے ہوتی ہے۔ ان بجلی چوروں اور انکے سرپرستوں کو پکڑا جائے اور بھاری جرمانہ اور رقم وصول کرکے قرضہ ادا کیا جائے، عوام کی گردن پر چھری نہ پھیری جائے۔
٭…٭…٭…٭
عمران خان کا پالتو کتا بھی بین الاقوامی شہرت یافتہ ہو گیا
ہماری ادبی تاریخ میں خواجہ سگ پرست کی طرح سگ لیلیٰ کو بھی ایک علامتی حیثیت حاصل ہے۔ قصہ لیلیٰ مجنوں نے اسے ویسے ہی لافانی بنا دیا ہے جس طرح قصہ ہیر رانجھا میں ’’مجوں‘‘ یعنی ان بھینسوں کا کردار لافانی ہو گیا ہے جن کو جناب رانجھا صاحب چرایا کرتے تھے اور اسی بہانے ہیر سے میل ملاقات کرتے تھے۔ مجنوں بھی عجب مردم بیزار شخص تھا۔ وصل کی راحت پا نہ سکا تو دیوانہ ہو گیا۔ لیلیٰ کی گلی میں جب سگ لیلیٰ کو دیکھتا تو اس کو چومتا اس سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ اب ہمارے متوقع وزیراعظم عمران خان نے بھی بنی گالہ کے غریب خانے میں ایک عدد کتا ’’شیرو‘‘ پالا ہوا تھا جو مر گیا۔
معلوم نہیں یہ شوق کب پروان چڑھا۔ اب ان کے پاس تین عدد سگ اور بھی ہیں۔ اہل مغرب کی طرح جنہیں جانور پالنے کا بہت شوق ہے، خان صاحب کو بھی شاید انہی کی طرح جانور پالنے کا شوق ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ عالمی میڈیا اور جرائد میں ان کے کتے کے بارے میں تفصیلات لکھی جا رہی ہیں۔ شاید ان کی ذات پات، خاندان حسب و نسب تک کوکھنگالا جائے۔ یورپ والے جانوروں سے محبت بھی کرتے ہیں اور ان کے بارے میں وسیع علم و تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم کہتے ہیں جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے نہیں آتے، اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ پیرنی بیگم انہیں برداشت کرتی ہیں یا بنی گالہ سے باہر چھوڑنے کا حکم دیتی ہیں۔ ویسے ریحام خان کو بھی کتے کی موجودگی پر خاصہ اعتراض تھا کہ یہ خان صاحب کے خاصے قریب اور مانوس ہے اور ہر جگہ آن ٹپکتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
گوجرانوالہ میں ایک سال سے پڑے کوڑے کے ڈھیر کی سالگرہ، کیک کاٹ کر اوپر رکھ دیا
مبارک ہو یہ سالگرہ گوجرانوالہ میونسپل کارپوریشن والوں کو کہ ان کی مہربانی سے ان کا لگایا یہ گندگی کا پودا پروان چڑھ رہا ہے۔ انگریزی نام رکھنے سے کوئی محکمہ یورپی نہیں بن جاتا۔ اصل بات کارکردگی ہوتی ہے جس میں ہمارے یہ محکمے ازل سے صفر ہیں۔ گوجرانوالہ کو ویسے ہی دنیا کے گندے ترین شہروں میں سے ایک شہر کا اعزاز حاصل ہے۔ قریب قریب یہی اعزاز کراچی کو بھی مل چکا ہے۔ اب اس دوڑ میں کوئٹہ بھی سرفہرست آ چکا ہے۔ پشاور والے بھی خود کو اس میں اول نمبر پر رکھتے ہیں۔ حیدر آباد، ملتان، سکھر وغیرہ بھی دوڑ میں شامل ہیں جلد ہی ان کا بھی نمبر اوپر آ جائے گا۔ گوجرانوالہ کے یہ شہری قابل تعریف ہیں جنہوں نے گندگی کے اس ڈھیر کو یاد رکھا اور اس کی سالگرہ منائی اس پر کیک بھی رکھا۔ شاید اس طرح گوجرانوالہ میں صفائی کے محکمے کو شرم آ جائے۔ معلوم نہیں شرم آئی بھی ہے یا نہیں۔ اب دیگر گندگی کا شاہکار شہروں کے باسی بھی ایسی ہی تقریبات کا انعقاد کریں اور ایسی تقریبات میں محکمہ صفائی کے افسران اعلی کو بطور مہمان خصوصی بلائیں اور ان سے ہی کیک کٹوائیں جو بعد میں ڈھیروں کے پاس ہی بٹھا کر سب کو کھلائیں تو شاید یہ گندگی کا مسئلہ حل ہو ورنہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی۔ ویسے جب سے نگران حکومت آئی ہے جس کی اب واپسی کی گنتی شروع ہے‘ لاہور میں بھی گندگی اٹھانے والوں نے کام چھوڑ دیا ہے۔ خدا جانے عید قربان پر اور بعد میں گندگی کے کیسے کیسے نادر نمونے یہاں بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
٭…٭…٭…٭