امیر قطر شیخ تمیم المجد نے پاکستان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے وہ نامزد وزیراعظم عمران خان سے فون پر گفتگو کر رہے تھے انہوں نے پاکستان کو ہر قسم کے تعاون کی بھرپور پیش کش بھی کی ہے اگرچہ قطر خود اپنے ‘‘بھائیوں’’ کے محاصرے میں ہے۔قطر کے اسلام آباد میں سفیر سقربن مبارک المنصوری نے بہت دن پہلے اس کالم نگار سے گفتگو کرتے ہوئے ‘‘عرب بھائیوں’’ کے جارحانہ رویوں پر اظہار تاسف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مشرق وسطیٰ صرف سیاسی اعتبار سے مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا ہے جبکہ ہمارے قبائل قطر سے کویت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا المنصوری قبیلہ سارے خطے میں آباد ہے جس کو ہزاروں سال کی تاریخ میں پہلی بار تقسیم کردیا گیا ہے یہ غیر تقسیم زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔انہوں نے بتایا کہ ہم تو سعودی عرب کے ساتھ معاشی یک جہتی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ محاصرہ کردیا گیا۔قطر کو سزا دینے کے لئے جاری بائیکاٹ اور محاصرے کو ایک برس کب کا بیت چکا ہے۔ یہ صرف قطر کا مسئلہ نہیں’ پورا مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے۔ نت نئے بحرانوں سے دوچار مشرق وسطیٰ اپنے اتحاد کی روایت سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ ستمبر میں متوقع امریکہ خلیج سمٹ میں قطر ی بحران کے حل کی نئی امیدیں بندھ رہی ہیں لیکن جن ہاتھوں نے الاؤ بھڑکایا ہو، وہ پانی کی پھوار کیوں کر بنیں گے؟ خود فریبی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
نائب وزیراعظم اور قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن التھانی نے خلیجی ممالک کے درمیان نئے معاہدے کی تجویز دی ہے۔ عقل اوردل بھلے گواہی دے لیکن عصبیت، ضد اور انتقام کے جذبے قطر کا بائیکاٹ کرنے والوں کو صحیح فیصلہ سے روک دیں گے۔ پندرہ برس سے مشرق وسطی مسلسل حوادث کا شکار ہے۔ ایک ایک کرکے آگ عرب دنیا کے گہوارے کو سلگاتی، بھسم کرتی چلی جارہی ہے۔ کثیرالقومی دہشت گردی، اندھی جنگیں ایک طرف ہیں تو دوسری جانب لہوپیتی درندگی سے جان بچانے والے لاکھوں دربدر افراد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نام نہاد عرب اتحاد کا شیرازہ بکھر چکا۔ دنیا کو عرب دنیا کے اندر کی کمزور یوں کا خوب علم ہوگیا۔
محمد بن عبدالرحمن التھانی کا یہ کہنا حقیقت ہے کہ ’قطر کے مسئلے کو مشرق وسطی سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ ایک اجتماعی اور مجموعی حل درکا ہے۔نائب وزیراعظم قطر نے تجزیہ کیا کہ ’شام میں قتل عام کے خلاف متحد ہونے کے بجائے عرب اتحادی یمن میں جنگ تیز کررہے ہیں۔خطے میں بعض فریقین اپنے فروعی مفادات کو مقدم جانتے ہوئے پورے عرب خطہ کے اتحاد کو بھینٹ چڑھانے پر تْلے ہیں جس کی ایک مثال قطر ہے۔‘
پانچ جون 2017ء کو یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب قطر کے ہمسایہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یواے ای)، بحرین اور مصر نے قطر سے اچانک تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔ الزامات کی فہرست میں دہشت گردی کی حمایت کرنا شامل تھا۔ ایران کے ساتھ ساز باز کا الزام سنگین ٹھہرایا گیا۔ قطر کی پروازوں اور قطر کے ساتھ تمام راستے، سرحدات بند کردی گئیں۔ بائیکاٹ کرنے والوں نے اپنے اپنے ممالک سے قطری شہریوںکو نکال دیا۔ یہاں تک کہ ’بے چارے‘ اونٹ بھی نہ بچے۔ 13مطالبات کی ایک فہرست قطر کو تھما دی گئی اور خبردار کیاگیا کہ اچھا بچہ بن جائے۔ الجزیرہ ٹی وی کو بند کرنے کاحکمنامہ دیاگیا۔ ترک افواج کو قطر سے نکال باہر کرنا، ایران سے تعلقات کو واجبی حد تک لانا بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ قطر ایران کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ میں شراکت دار ہے۔ قطر نے کوئی شرط پوری نہ کی اور الزامات مسترد کرکے سفارتی اور تجارتی سطح پر نئے معاہدات اور تعلقات کی ایک نئی تیزی وطراری دکھائی۔ قطر نے ترکی سے قربت میں اضافہ کیا۔جس سے سعودی عرب اور ترکی میں تعلقات کشیدہ ہوئے۔قطر نے خلیج میں زیادہ فعال کردار ادا کرکے اپنے تعلقات کو وسعت دی۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد التھانی نے گزشتہ ماہ ایران کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے قطر بحران کے دوران اس کی مدد کی۔
قطر کے وزیر خارجہ نے لکھاکہ ’گزشتہ برس قطر چار ممالک کے ناجائز بائیکاٹ کا شکار رہا ہے۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر قطر کی آزاد خارجہ پالیسی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان ممالک کا خیال تھا کہ قطر کو جھکایا جاسکتا ہے۔ اْن کو اپنے اس اردارے میں کامیابی نہ ہوئی اور گزرا برس ہمسایوں کی اس سوچ کی ناکامی کی دلیل ہے۔‘ ’ قطرکے محاسبے اور محاصرے کے بعد اس کی خوداعتمادی میں پہلے کی نسبت بے پناہ اضافہ ہواہے اور زیادہ طاقت ور ریاست بن کر ابھرا ہے۔ ہم نے خوراک، ادویات کی فراہمی کے لئے نئے اور متبادل وسائل اوراسباب ڈھونڈے۔ اس عرصے میں ہم نے اقتصادی تعاون کے لئے نئے معاہدے کئے تاکہ اپنی معیشت کو جدید تقاضوں کے ہم پلہ بناکر پروان چڑھائیں، تیل پر انحصار کم کریں۔ گزشتہ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے اعتراف کیا کہ قطر خلیج میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن گیا ہے۔‘ حالات کا تقاضا ہے کہ عرب دنیا درپیش مسائل پر اپنا متفقہ لائحہ عمل سامنے لائے۔‘
وقت نے سچ ثابت کیا ہے کہ ’قطر پر پابندیوں اور اس کے بائیکاٹ کی عمومی کہانی عوام کے نزدیک محض جھوٹے بہانے اور عذر ہیں۔ جس سے مشرق وسطیٰ کے استحکام پر کاری ضرب لگی۔ واضح رہنا چاہئے کہ اس تنازعہ میں فاتح کوئی بھی نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پابندیاں لگانے اور بائیکاٹ کرنے والے ممالک مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے مفاد میں یہ محاصرہ ختم کردیں۔
نائب وزیراعظم قطر کی یہ تجویز نہایت دوراندیشی پر مبنی ہے کہ ’خلیجی ممالک ایک نیا فریم ورک مرتب کریں تاکہ امن اور استحکام کی نئی منزل کو حاصل کیاجاسکے۔ قطر کا بائیکاٹ کرنے والے تینوں ممالک جی سی سی کے رکن ہیں، تاریخی اعتبار سے خلیج تعاون کونسل نے خلیجی امور میں استحکام کا کردار اداکیا ہے۔ اسے کبھی بھی علاقائی عدالت یارائے عامہ ہموار کرنے والے گروہ یا پالیسی ساز ادارے کے طور پراستعمال نہیں کیاگیا۔‘
لہذا ’ایک ایسے وسیع فورم کی ضرورت ہے جہاں ممالک میں مذاکرات اور بات چیت کی راہ ہموار ہو اور اس کے مواقع میسر آسکیں۔ ماہرین کے خیال میں ’قطرتنازعہ سے نیا خلیج ابھررہا ہے۔‘ ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ نیا خطہ اس قدرمستحکم نہیں ہوگا جیسا کبھی ہوا کرتا تھا۔ رائس یونیورسٹی کے محقق کرسچئین الرچسن کا تجزیہ ہے کہ ’خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) قطر تنازعہ کے بعد عملاً اپنا وجود کھو چکی ہے۔ قطرکو ترکی اور ایران کی طرف دھکیلا جاچکا ہے۔‘
کنگز کالج لندن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوڈ رابرٹس کے خیال میں ’مشرق وسطیٰ میں طاقت کے نئے مراکز کا ابھرنا بعید ازقیاس نہیں۔‘ ان کی رائے میں ’اخوان المسلمون اور حماس کی مدد کرنے کے الزام میں قطر پر پابندیوں کا چار اتحادیوں نے جو جوا کھیلا تھا، وہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔‘ صدر ٹرمپ کے ساتھ سعودیوں کی حمایت میں کھڑے افراد ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ شیخ تمیم کو ایک شریف آدمی قرار دیتے ہیں اور پرامن حل کی بات کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک کے معاملہ میں ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر پر بدعنوانی کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔اس بحران کی وجہ سے 2022ئ میں فٹ بال ورلڈکپ کے لئے بھی خدشات پیدا کردئیے تھے جس کی میزبانی قطر کو کرنی ہے۔ خلیج میں قومیت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بحران قطر میںقومیت کے فروغ کا باعث بنا ہے۔
دوحہ سر شام روشنیوں میں نہا جاتا ہے کوچہ و بازار پر رونق ہیں کہیں محاصرے اور محاسبے کے نشان تک دکھائی نہیں دیتے۔ اک نیا جہان آباد و شاد باد ہے قدیم طرز تعمیر کا نمونہ’سوق واقف میں سر شام روایتی عرب چوپالیں آباد ہو جاتی ہیں۔ قہوہ شیشہ اور دنیا جہان کے کھانے سج جاتے ہیں۔ جہاں میری توفیقہ آپا کا بیٹا سیف الرحمن خان اپنی ذاتی سلطنت بنائے ہوئے بروئے کار ہے اور وہ شریف برادران کا چوتھا بھائی سمجھا جاتا تھا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024