شکست کی وجوہات
بڑے بڑے سیاسی سرخیل ‘ ان داتا اور بزعم خود ناقابل شکست لیڈران کرام بھلا ۲۵؍ جولائی سن ۲۰۱۸ کے انتخابات میںہارے کیوں؟پچھلے کالم میں میں نے اشارۃً ذکر کیا تھا مگر اب ذرا وضاحت کے ساتھ وجوہات کا ذکر ضروری لگتا ہے ۔۱۹۷۰ کے عام انتخابات کو پاکستان کی ، بشمول مشرقی پاکستان، ہماری تاریخ کے سب سے شفاف الیکشن کہا جاتا ہے، حالاں کہ وہ انتخابات ایک ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے عہدِ حکومت میںہوئے تھے۔ انتخابات کے بعد مجیب، بھٹو اور دیگر سیاست دانوں نے اچھے بھلے الیکشن کی جو ریڑھ ماری وہ سب کو معلوم ہے۔ مجیب کی عوامی پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں مگر صرف مشرقی پاکستان میں، بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں مجیب کی عوامی پارٹی کے بعد دوسرے نمبر پر نشستیں ملیں۔ یحییٰ نے ڈھاکے میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا۔ مگر بھُٹو نے مجیب کی اکثریت ماننے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیے۔اخباروں کی شہ سُرخیاں جو مجھے یاد ہیں یہ تھیں،’’جو اسمبلی ممبر ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے لیے گیا میں اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘ دوسرا اعلان مجیب کو مخاطب کرتے ہوئے کیا،’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘۔ جہاں تک مجھے یاد ہے صرف ایک سیاستدان مغربی پاکستان سے ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تھا اور وہ تھا احمد رضا قصوری۔ اور کوئی مائی کا لال ڈھاکہ نہ گیا۔ اجلاس ٹھپ ہو گیا۔ اکثریتی پارٹی کا حقِ حکومت تسلیم نہ کیا گیا۔ اور پھر ہزار ہا جانیں تلف ہوئیں، اور۱۶ِ دسمبر ۱۹۷۱کا سیہ دن مشرقی پاکستان کیا پورے پاکستان پرکالک کا پوچا پھیرتا گیا اورسقوطِ ڈھاکہ ہو گیا اور ۲۶ِ دسمبر ۱۹۷۱ کی منحوس صبح کو بھٹو دنیا کا پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان بن گیا۔یوں مجیب اور بھٹو کی دلی آرزوئیں رنگ لے آئیں۔ مجیب جو بنگلہ دیش کا فادر آف دی نیشن بنا چند ہی سال کے بعد اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مع اپنے کنبے کے ، سوائے ایک بیٹی کے جو آج تک وقفے وقفے سے بنگلہ دیش پر راج کرتی آ رہی ہے ، انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ادھر بھُٹو کو جنرل ضیا ء الحق کے دور میں، احمدرضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں پھانسی پر لٹکا دیا کیوں کہ بھٹو نے،جب بھٹو وزیرِ اعظم بن کے با اختیار تھا، احمد رضا قصوری کے لیے ایک مقدمے کی فائل پر اپنے مختصر دستخطوں سے Eliminate him لکھ دیا تھا، جس کے بعد حکومتی اہلکاروں نے احمد رضا قصوری پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں احمد رضا قصوری تو بچ گیا جب کہ اُس کے والد قتل ہو گئے۔ جس پر احمد رضا قصوری نے بھٹو پر قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر کٹوا دی اور بالآخربھٹو بھی اپنے انجام کو پہنچا۔بھٹو جس طرح اپنے مخالفین کو ذلیل کیا کرتا تھا وہ میاں محمد طفیل امیرِ جماعتِ اسلامی اور پیپلز پاڑتی کے بانیوں میں سے ایک جے اے رحیم کی صورت میں پاکستانی تاریخ کا انتہائی افسوسناک حصہ ہے۔ بعد میں دنیا نے دیکھا کہ بھُٹو کے چھوٹے صاحبزادے فرانس میں پُر اسرار طور پر اپنے ہی گھر میں مُردہ پائے گئے اور بڑے صاحبزادے اُس کی بہن کے وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے کراچی میں پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے اپنے گھر کے سامنے ہی قتل کردیے گئے۔ ضیاء الحق بعد میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔خود بے نظیر راول پنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی کی چھت کے روزن سے باہر نکلی تو کسی نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئی جس کے نتیجے میں اُس کے خاوند صدرِ پاکستان بن کر پانچ برس اقتدار میں رہے مگر شاباش ہے موصوف پر، اپنی بیوی کے قاتلوں کو نہ پکڑ سکے حتیٰ کہ اُن کے اتحادی نواز شریف کا دور بھی ختم ہو گیا مگر بی بی کے قاتل تا حال نامعلوم ہی ہیں۔اب آئیے موجودہ انتخابات کی طرف۔آج عمران خان کی جتنی بھی مخالف جماعتیں ہیں وہ ۲۰۱۸ کے انتخابات کے دھاندلی زدہ الیکشن کا واویلا مچا رہی ہیں۔اس دفعہ انتظامات ایسے تھے کہ ایم کیو ایم،پی پی پی، ن لیگ وغیرہ دھاندلی کی ماہر جماعتوں کوکوئی موقعہ دھاندلی کا نہ مل سکا۔ ان جماعتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دھاندلی کے بغیر بھی الیکشن منعقد ہو سکتے ہیں ۔لیکن شام کے چھ بجے تک ووٹنگ ہوئی اور تقریباً ہر پولنگ سٹیشن سے یہ اطلاعات آنے لگیں کہ انتہائی صاف شفاف انتخابات ہو رہے ہیں فوراً ہی سر جوڑے گئے اور یہ سمجھا گیا چوںکہ روائیتی پارٹیاں ہمیشہ دھاندلی سے جیتتی آئی ہیں تو یہ جو پی ٹی آئی کو جیت ہو رہی ہے یہ بھی دھاندلی ہی سے ہو سکتی ہے۔اِن الیکشنز میں ہر پارٹی نے ہر پولنگ بوتھ میں دو دو ایجینٹ بھیجے ہوئے تھے تو گنتی کے وقت بیس یا تیس کے مجمع اور بھیڑ میں گنتی میں خلل پڑتا تو یہ کہا گیا کہ چند لوگ ہر پارٹی کے نمائندے اندر رہیں اور باقی کے باہر چلے جائیں تا کہ گنتی ہو سکے۔ یوں متعدد لوگ باہر آ گئے۔ یہ دیکھ کر بعض بزر چمہر وں کو سوجھی کہ یہ اچھا موقع ہے یہ شور مچانے کا کہ ہمارے لوگوں کو باہر نکال کر گنتی ہو رہی ہے تو یقینا دال میں کالا ہے لہٰذا دھاندلی ہو رہی ہے۔اب ان دھاندلی کے شیروں کو ایک اور موقع ہاتھ آ گیا کہ اپنے ایجینٹوں سے کہا گیا کہ احتجاج کرتے ہُوئے باہر آ جائیں اور کورس میں دھاندلی کا راگ الاپیں۔ چنانچہ راگ داری شروع ہو گئی۔یہاں تک کہ سارے الیکشنوں کا بائیکاٹ اور نتائج مسترد کرنے کے پُر شور اعلانات نشر ہونے شروع ہو گئے۔ ٹی وی چینلز کی بھی عید ہو گئی۔شو باز شریف اور فضل الرحمٰن تو باقاعدہ خم ٹھونک کر میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ جب بلاول بھٹو کی لیاری سے چھُٹی ہوئی تو وہ بھی ان واہی تباہی کے داعیوں میں شامل ہو گیا۔ اب الیکشن کمشن نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے اپنی نتائج کی ترسیل کرنے والی مشینیں بٹھا دیں، یا وہ خود ہی بیٹھ گئیں۔لطیفہ یہ ہُوا کہ فضل الرحمٰن کسی ایم ایم اے کے امیدوار سے ہار گئے۔اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ کس نے کس کے خلاف دھاندلی کی۔ن لیگیوں اور پی پی پی والوں کی ہار تو الیکشن سے پہلے ہی نظر آ رہی تھی جب بلاول پر لیاری میں پتھروں کی بارش ہوئی تھی اور ہر ‘ن لیگی کو اپنے حلقے کے عوام سرِ بازار ذلیل کرتے تھے کہ تم نے کیا ہی کیا ہے جو‘ اب ووٹ مانگنے آن ٹپکے ہو۔شکست کی سب سے بڑی وجہ یہی ذلّتیں تھیں جو تقریباً سب سابقہ لٹیروں کو نصیب ہوتی رہیں۔اس کے بعد بڑی وجہ یہ تھی کہ پِسے ہوئے عوام کو ان چوروں اور ڈاکوؤں کے مقابلے میں عمران کی شکل میں ایک صاف ستھرا انسان میسر آ گیا۔میرا تجزیہ یہ ہے کہ ان ڈاکو بھائیوں کی ہار کی سب سے بڑی وجہ یہ ڈاکو بھائی خود ہی ہیں۔ اگر یہ عوام کے ہاتھوں اپنے چیتھڑے ہو چکے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا کریں تو شکست کی وجوہات سامنے سینے پر جلی حروف میں لکھی نظر آ جائیں گی۔لیکن ان بے نصیبوں کی قسمت میں گریبان میں جھانکناہے ہی نہیں۔ہمیشہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات لُوٹنے والوں کو صاف شفاف الیکشن منظور ہی نہیں۔ایسے بد نصیبوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ قدرت ہر قوم کے حالات کو پلٹاوا دیتی رہتی ہے۔ اس بد نصیب قوم کے حالات بھی بدلنے کو ہیں۔ان شاء اللہ ہم پاکستان میں بھی ہر سطح پر انصاف کا بول بالا ہوتے دیکھیں گے۔بقولِ غالبؔ:
آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں