جیسا پچھلے کالم میں عرض کیا کہ مفروضوں پر مبنی حتمی رائے کبھی بھی معتبر نہیں ٹھہرتی تا آنکہ اس سلسلے میں ٹھوس بنیادوں پر واقعاتی شہادتوں کا سہارا نہ لیا جائے۔ مزید براں پولیٹیکل سائنس کے ایک طالبعلم کی حیثیت میں یہ بھی عرض کیا کہ دنیا بھر میں ہر الیکشن تین مراحل کمپیئن، پولنگ اور نتائج پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ الیکشن کے پہلے فیز جو کہ فری اینڈ فیئر کمپیئن فار آل والا مرحلہ تھا اْس تناظر میں اگر واقعاتی شہادتوں کا جائزہ لیا جائے تو پھر موجودہ الیکشن 2018ء کے پہلے فیز میں الیکشن سے کچھ عرصہ قبل کچھ مقتدر اداروں کی طرف سے کچھ ایسے اقدامات دیکھنے کو ملتے ہیں جو موجودہ الیکشن کی صحت کے بارے میں کچھ شبہات کے جنم کا جواز پیش کرتے ہیں جبکہ اسکے برعکس اگر دوسرے مرحلے جو کہ پولنگ کا عمل کہلاتا ہے بطور ایک غیرجانبدار تجزیہ نگار اسکا جائزہ لیں تو اس میں اِکا دْکا واقعات کو چھوڑ کر کوئی بھی ایسی واقعاتی شہادت سامنے نہیں آتی جس سے اس عمل کو مشکوک قرار دینے کا کوئی تاثر اْبھر سکے۔ آب آتے ہیں تیسرے مرحلے کی طرف جو کہ نتائج کی ترتیب اور اعلان پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر واقعاتی شہادتوں کی طرف جائیں تو الیکشن کے اختتامی اوقات جو کہ شام چھ بجے تک تھے اسکے دو گھنٹے بعد تک کی صورتحال پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ نتائج کے مرتب کرنے کا عمل بڑے احسن طریقے سے اپنے مراحل طے کر رہا تھا۔ پھر ہوا یوں کہ تقریباً اْٹھ بجے شب سب سے پہلے پاک سر زمین پارٹی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ کراچی اور حیدرآباد کے اکثر حلقوں سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ گنتی کے عمل کے دوران اْن کے زیادہ تر پولنگ ایجنٹس کو پولنگ کے عملے نے بزور طاقت یا تو باہر نکال دیا ہے یا پھر اْنھے اندر محبوس کر دیا ہے اور پھر دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی سمیت اکثر دوسری سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اسی قسم کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں یہاں تک کہ وہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز جو اپنے ذرائع سے دھڑا دھڑ الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کا اعلان کر رہے تھے انکی طرف سے بھی اس حیرانگی کا اظہار شروع ہو گیا کہ کیا وجہ ہے کہ الیکشن کمشن کی طرف سے سرکاری طور پر کسی بھی حلقے کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا حالانکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ان الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے آر ٹی ایس کے نام سے ایک ایسا نظام اسطرح متعارف کروانے کا دعوی کیا گیا تھا کہ رات دو بجے تک تمام نتائج موصول ہو جائینگے اور انکا اعلان کر دیا جائیگا۔ پھر کیا ہوا کہ تقریباً رات بارہ اور ایک بجے کے درمیان جب ہر فورم پر شور اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو الیکشن کمشن کی جانب سے انکا ایک ترجمان سامنے آیا اور اس نے یہ اعلان کیا کہ آر ٹی ایس کا سسٹم زیادہ لوڈ برداشت نہیں کر سکا اور وہ بیٹھ گیا ہے جسکی وجہ سے پولنگ بوتھوں کی طرف سے نتائج کی الیکڑانک ترسیل رک گئی ہے اور اب نتائج کی ترسیل کیلئے پرانے مینول سسٹم پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔ بس پھر کیا ہونا تھا یہی وہ ایک لمحہ تھا جب الیکشن کمشن پر ہر طرف سے تنقید کے تیر برسنا شروع ہو گئے۔
کچھ نے اس تکنیکی ناکامی کو professional incompetence کا نام دیکر تنقید کا نشانہ بنایا تو کچھ نے اسے دھاندلی کیلئے سوچی سمجھی چال کا نام دیکر دل کی بھڑاس نکالی۔ جیسے راقم اپنی تحریر میں بار بار اس بات پر زور دے رہا ہے کہ کسی بھی حتمی رائے پر پہنچنے کیلئے ایک طویل تحقیقاتی عمل اور واقعاتی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی تناظر میں راقم کی ایک تجویز ہے کہ یہ چنگاری جو اپنے اندر ایک بہت بڑی آگ بننے کا پورا پورا ساماں سمیٹے ہوئے ہے اس سے پہلے کہ یہ ایک بہت بڑی آگ بن جائے اور پھر ایک دو سال کیلئے پورا ملک جمود کا شکار ہو جائے کیا بہتر ہو کہ اسی ایک مرحلے پر ملک کی اعلی عدالت جو پہلے ہی بہت سے معاملات کو اپنی ادارہ جاتی برتری کو بروئے کار لاتے ہوئے دیکھ رہی ہے اس نازک معاملے پر بھی نوٹس لیتے ہوئے اسکی ایک جامع تحقیق کیلئے ایک جے آئی ٹی بنا کر اس چنگاری کو یہیں ٹھنڈا کر دے۔ راقم نے اس امکانی گڑبڑ کے خدشات کا محتاط اندازہ لگاتے ہوئے عرصہ سال دو سال کا لفظ استعمال کیا ہے۔ قارئین آپ جاننا نہیں چاہیئں گے کہ راقم نے عرصہ سال دو سال کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے تو قارئین راقم کی تیسری آنکھ جو دیکھ رہی ہے اسکی تفصیل میں نہیں جاؤنگا لیکن صرف اپکی توجہ کیلئے ایک دو اشارے استعمال کرونگا۔ ذرا یہ تو بتائیے کہ جب مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے نتائج کے اگلے ہی دن اے پی سی بلا کر حلف نہ لینے اور فی الفور احتجاجی تحریک کی تجویز پیش کر کے جب یہ کہا کہ پشاور اور کراچی ایم ایم اے بند کر دیگی نون لیگ پنجاب کی ذمہ داری سنبھال لے تو اس تجویز سے اتفاق نہ کرنے والا پہلا شخص کون تھا تو دوستو یہ وہی شخص تھا جس نے نواز شریف کی وطن آمد پر جلوس صرف گورنر ہاؤس تک محدود رکھا تھا اور محاوراتی زبان میں جسے کہتے ہیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ جی جناب اس سلسلے میں عرض کروں کہ آئندہ ہونے والے معرکے کے دو بڑے کھلاڑیوں آصف زرداری اور شہباز شریف کو اس بات کا پورا پورا ادراک ہے کہ انکی جان اب کس کس طوطے میں اٹکی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب کیلئے پہلے عْزیر بلوچ ہی بہت بھاری ثابت ہو رہا تھا اوپر سے اب راؤ نہیں جسے میں تاؤ انوار کہتا ہوں وہ اور 28 بنک اکاؤنٹس والا آتش فشاں موجود ہے تو شہباز شریف کیلئے عابد باکسر ماڈل ٹاون سانحہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد اور 56 کمپنیوں جیسے ناگ اپنے پھن پھیلائے کھڑے ہیں اور انہیں پتہ ہے مالی معاملات میں تو قید کی سزا ہوتی ہے جبکہ دوسرے معاملات میں کئی دفعہ اوپر کا راستہ بھی نظر آتا ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ اس حقیقت کا نظارہ بھی کر چکی ہے جب ذوالفقار علی بھٹو جیسا شخص پھانسی کے پھندے جسے اکثر مورخ عدالتی قتل کا نام بھی دیتے ہیں پر جھول گیا۔ اسلئے راقم کے ادنی خیال میں ابھی عملی جنگ کی بجائے لفاظی جنگ پر زور دکھائی دیتا ہے لیکن کیا پتہ وہ غیر ملکی طاقتیں اور دشمن جو پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کونسا گھناؤنا کھیل کس وقت شروع کر دیں۔ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ میرے ان خدشات پر ارباب اختیار توجہ دیتے ہیں یا پھر کسی مصلحت کے تحت خاموش رہتے ہیں لیکن بطور ایک غیر جانبدار تجزیہ نگار اس پورے الیکشن پراسس پر راقم کے لاتعداد تحفظات ہیں۔ یاد رہے راقم یہاں لفظ الیکشن نہیں الیکشن پراسس استعمال کر رہا ہے جس پر انشااللہ پورے ایک کالم میں بات ہو گی کہ ہمیں اپنے سیاسی عمل میں اسقدر گند کیوں دکھائی دیتا ہے اور اسکے تدارک کیلئے کن عملی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن سردست موجودہ الیکشن جنہیں متنازعہ بنانے کا ایک عمل شروع ہو چکا ہے اسے متنازعہ بنانے والوں سے راقم کا ایک سوال ہے کہ جب چھ بجے پولنگ کے عمل کے اختتام پر اْنکے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشنوں سے بزور طاقت بیدخل کیا گیا تو انہوں نے اگلے ہی لمحے متحرک میڈیا جو کہ ہر جگہ موجود تھا انکے سامنے اپنا احتجاج کیوں ریکارڈ نہیں کرایا اور انکی قیادت نے الیکشن کمشن سے اسکی شکایت کیوں نہیں کی حالانکہ اس دور میں ای میل، واٹس ایپ اور ٹوئیٹر ایسے ہتھیار ہیں ٹائمنگ کے لحاظ سے ثبوت کے طور پر جنکی صحت کبھی چیلنج ہو ہی نہیں سکتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب شکست کے آثار نظر انا شروع ہوئے تو پھر یہ واویلا شروع ہوا۔ اس پر مزید بات انشاء اللہ اگلے کالم میں ہو گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38