نیا وزیراعظم کیسا ہوگا؟
پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی ا جلاس میں عمران خان کو ملک کا باضابطہ نیا وزیراعظم نامزد کرلیا گیا ہے جبکہ سادہ اکثریت کے بعد ایوان زیریں میں وزارت عظمیٰ کے بعد اسپیکر‘ ڈپٹی ا سپیکر کے چنائو کے لئے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ وزیراعظم بننے سے قبل پروٹوکول ملنے پر اظہاربرہمی خوش آئند ہے تاہم وی وی آئی پی شخصیت کا رتبہ ملنے پر سیکیورٹی فراہم کرنا اداروں کی مجبوری ہے۔ نامزد وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا ’’آج میرے لئے پروٹوکول لگا دیا ایسے ملک نہیں چلے گا‘ اگر تبدیلی نہ لاسکے تو حشر ایم ایم اے اور ا ے این پی سے بھی برا ہوگا‘ خود مثال بنوں گا اور آپ سب کو مثال بننے کی تلقین کروں گا‘‘۔نامزد وزیراعظم کو مبارکباد ان دعائوں و تمنائوں کے ساتھ کہ ان جذبات وولولہ کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کریں ا ور جو قوم سے وعدے کئے ہیں وہ ایفاکریں۔ (آمین) بہر حال ہم نے اکثرٹیلی ویژن پروزیراعظم کی تقریر کے دوران سنا ہے کہ یہ وزارت عظمیٰ کی کرسی کوئی عام کرسی نہیں ہے بلکہ یہ کانٹوں کی سیج ہے۔ گویا یہ عیش و عشرت والا مرتبہ نہیں بلکہ دن رات کا سکون غارت کرنے والی کرسی ہے لیکن کیا کیا جائے ہمیں ملک و قوم کی خدمت جو کرنی ہے‘ انسانیت اور عوام کی خدمت کا جذبہ اس مقام پر لے آیا ہے۔ یہی جذبہ گزشتہ 22 سال سے متوقع حکومت کے نامزد امیدوار عمران خان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ مزید کچھ لکھنے سے قبل ایک واقعہ کا تذکرہ ہوجائے گریڈ سترہ کے ایک افسر کو ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکمہ میں ٹرانسفر کردیا گیا‘ موصوف خدمت کے جذبہ سے اس قدر سرشار تھے کہ 40 سالہ ماتحت ملازم سے 24 سالہ جوان والا کام لیں گے۔ محکمہ کی جانب سے ملنے والی 1996ء ماڈل کی کار کو 2016ء جیسی گاڑی بنا دیںگے۔ اعلیٰ یوںڈیپوٹیشن پر آنے والے افسر ہوا میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے لیکن انہیں بہت جلد احساس ہوگیا کہ 40 سالہ ماتحت اب 24 سالہ جوان نہیں بن سکتا۔ وہ جہاں ایک جانب دو تین بیماریوں میںمبتلا ہے وہیں اسکا 20 سالہ تجربہ اس کے جذبہ پرہاوی ہے۔ چاہے کچھ بھی کرلے پرانی گاڑی نئی نہیں بن سکتی گویا افسر کو ا دارے کی پالیسی اور قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ عمران خان کی پارٹی میں شریک سیاستدان اورمنتخب نمائندے بھی کوئی نئے نہیں‘ یہ پرانے چاول ہیں‘ یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہئے۔ انتخابات کے ابتدائی نتائج کے بعد بالخصوص پی ٹی آئی کی خوشیاں ایک جانب‘ اوردوسری طرف حکومت سازی کیلئے قومی اسمبلی میں مطلوبہ نشستوں کی تعدادنے فکر مند کردیا اور 26 جولائی یعنی انتخابات کے دوسرے دن ہی پی ٹی آئی کو احساس ہوگیا کہ حکومت بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ مسلم لیگ (ق)‘ بی اے پی‘ بی این پی اور اکا دکا آزاد امیدواروں کو ملاکر بھی حکومت نہیں بن پائے گی بلکہ ان کی بھی خوشامد کرنی پڑے گی۔ جنہوں نے انکے امیدواروں کو ہی شکست دے دی۔ ان سے بھی مذاکرات کرنے ہوںگے‘ جنہیں پورے 22 سال پسند نہیں کرتے تھے۔ گویا عمران خان کویہ احساس ہوگیا ہوگا کہ وزارت عظمیٰ کی سیٹ کوئی عام سیٹ نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نومنتخب وزیراعظم کو بہت جلد آٹے دال کابھائو معلوم ہوجائے گا۔ انہوںنے اپنے ناتواں کندھوں پر اتنا بڑا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ چند قدم چلنے کے بعد ان کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں گی ان کا سانس پھول جائے گا اس کی دوسری بڑی وجہ ان کے ہمراہ دوسری پارٹیوں سے آنے والے ممبران اور لیڈرز ہیں۔ ہر ایک کے اپنے اپنے مطالبات ہوںگے‘ گویا ہر ایک کے آگے وزیراعظم بلیک میل ہوںگے۔ چند و وٹوں کی اکثریت سے بنی حکومت پر خاتمے کی تلوار لٹکتی ہی رہے گی۔
متحدہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے اور احتجاجی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لئے 16 رکنی جوائنٹ ایکشن کمیٹی قائم کردی ہے۔ متحدہ مجلس عمل‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ اے این پی‘ اورپختون عوامی پارٹی عمران خان کے وزیراعظم بننے کے پہلے ہی دن حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے حق میں ہیں۔ متحدہ اپوزیشن آل پارٹیز کانفرنس نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم‘ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ راقم الحروف کا خیال تھا سینیٹ میں چیئرمین کے انتخابات میں جس طرح پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کاا لحاق ہوگیا تھا اسی طرح اب کی بار بھی عمران خان اور آصف زرداری ا یک ہوجائیں گے لیکن عمران خان پیپلزپارٹی کو خاطر میں نہیں لائے اور ان کی امیدوں پرپانی پھیر دیا۔ اس کے باوجود نئی حکومت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ جس میں طاقتور اپوزیشن کا کردار اہم ہوگا۔