سقراط کے مایہ ناز شاگرد افلاطون نے آج سے قریباً 2400 برس پہلے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ریپبلک‘‘ لکھی جس میں کارآمد ریاست کے تین بنیادی اصول گنوائے جن میں پہلا انصاف کی بلا روک ٹوک فراہمی، دوسرا رواداری اور تیسرا اجتماعی بھلائی کیلئے کوشش تھا، اسلامی انقلاب نے کڑے احتساب اور حکمرانوں کی انتہائی سادگی کے اصول وضع کرکے ریاستی تصور کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
ان نکات کو مدنظر رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ ایک ہارڈ ریاست کیسی ہونی چاہئے؟یقیناً وہاں کے ’’مکینوں‘‘ کو زیادہ سے زیادہ مطمئن زندگی دستیاب ہونی چاہئے ’’دودھ چاندی جیسا اور پانی صاف ملنا چاہئے‘‘ ایک ایسا ’’نگر‘‘ جہاں بے شک دوسرے مسائل آتے جاتے رہیں لیکن ہردم انصاف کی ’’بہار رقصاں‘‘ دکھائی دے۔ ڈیرن آئسی موگلو اور جیمز اے روبنسن نے اپنی زندگیوں کے 15 برس صرف کرکے (Why Nations Fail)لکھی تو اس کتاب نے نہ صرف سیاسیات بلکہ سماجیات کے میدان میں بھی انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’وائٹ مین ٹو رْول‘‘ کی جھوٹی کہانیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں اور لوگ ابن خلدون کے ’’نظریہ عصبیت‘‘ سے پرے بھی قابل ستائش زندگی گزار سکتے ہیں اور وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارا مانتی ہیں۔ جہاں عام شہریوں کو سہولت فراہم کرنے والے ادارے اسی طرح (Incentive Oriented Organizations ) اتنی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں بھیک مانگنے اور فراڈ کرنے والے دکھائی دیتے ہیں۔
وہ اپنے نظریہ کی وضاحت کیلئے دونوں ’’کوریاؤں‘‘ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں جنوبی اور شمالی کوریا ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن شمالی کوریا اپنے عوام کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے غریب ترین ملک ہے جبکہ جنوبی کوریا میں عوامی فلاحی ادارے بہت زیادہ ہیں اور وہ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل ہے۔ یعنی ترقی یا حکمرانی کیلئے کسی ’’خاص نسل‘‘ سے متعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا اور دوسرے یہ کہ ترقی کی اپنی زبان ہوتی ہے جو اپنوں کی خوامخواہ محبت یعنی ’’عصبیت‘‘ سے بھی کہیں پرے لے جاتی ہے۔ اسی طرح اجتماعی بہتری کی سوچ کا فقدان وہ موذی مرض ہے جو بڑی ’’مہارت‘‘ سے اپنی ہی صورت کو بگاڑ لیتا ہے اور بڑی بڑی قوموں کو دار کی خشک ٹہنی پر وار کر تاریک راہوں کا مسافر بنا دیتا ہے۔
ایک لطیفہ یاد آ گیا جو بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں سمجھانے اور آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ایک سرکاری ملازم بہت سْست تھے بڑے صاحبوں کو سلام کرنے میں بھی اکثر سْستی دکھا جاتے۔ ایک روز دفتر میں ایک ’’بہت بڑے صاحب‘‘ نے دورہ کیا تو ان ملازم صاحب کی سْستی بہت بری لگی چنانچہ جتنی دیر میں وہ ’’بہت بڑے صاحب ‘‘ کو سلام عرض کرتے اس سے بھی پہلے تبادلہ ایک دشوار گزار علاقے میں کرا بیٹھے۔ اس علاقے کی سختیاں برداشت کرکے ’’آب و ہوا کے کسی قدر عادی ہوئے ہی تھے کہ ’’بہت بڑے صاحب‘‘ پھر آدھمکے۔ چنانچہ وہی سستی ’’کچھ عشق اورکچھ کام‘‘ کی طرح آڑے آئی اور موصوف اس مرتبہ اپنا تبادلہ انتہائی مشکل علاقے میں کرا بیٹھے۔ یہ علاقہ ملک کا سب سے دشوار گزار علاقہ تھا۔ ایک روز وہ اپنے دفتر میں چائے پی رہے تھے کہ بہت بڑے صاحب، یہاں بھی ’’نازل‘‘ ہو گئے۔ اس مرتبہ سرکاری ملازم صاحب نے ’’سلام دعا‘‘ کا تکلف ایک طرف رکھ کر بڑے اعتماد سے بیٹھے بیٹھے چائے کی دعوت دے ڈالی۔ وہ بہت بڑے صاحب جتنے بڑے تھے اتنے ہی حیران ہوئے اور وہ پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ اس ’’جرات رندانہ کی وجہ کیا ہے‘‘ تو ملازم صاحب شان بے نیازی سے بولے ’’آپ ملک کے مشکل ترین علاقے میں تو میرا تبادلہ کر چکے اب یہاں سے ’’جہنم‘‘ بھیجنے سے تو رہے چنانچہ اگر مگر میں نہ پڑیں آئیں اور میرے ساتھ چائے کی چْسکیاں لیں‘‘
وہ ریاستیں اور معاشرے جو اپنے شہریوں کو ’’حرف غلط‘‘ سمجھ کر بڑی ’’فراخدلی‘‘ سے سہولتوں کی بجائے محرمیوں کے ’’دور دراز مقامات‘‘ پر دھکیل دیتی ہیں وہ ’’موم کی ناک‘‘ تو بن سکتی ہیں ہارڈ ریاست بننا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو سرحدوں کے پار بھی تہذیبی اور لسانی وابستگیاں موجود تھیں لگ بھگ اسی طرح جس طرح جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان موجود ہیں یہ وابستگیاں ایک قدرتی امر ہے، کوئی غلط بات بھی نہیں۔ اگر وقت گزرنے کے ساتھ ملکی بنیادوں میں میرٹ، اور وسائل کی برابر تقسیم اور کڑے احتساب کا ’’فولاد‘‘ڈال دیا جاتا تو بہت سے مسائل سر ہی نہ اٹھا پاتے لیکن صد افسوس زیادہ تر جذباتی جمع خرچ کرکے عملی اقدامات سے کنارا کشی اختیار کر لی گئی جس کا فوری نتیجہ تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آ گیا اور لانگ ٹرم نتائج کے نمونے آجکل ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وطن عزیز کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنایا جاتا کہ ہر کوئی اس کے ثمرات سمیٹ کر حقیقی نیشنلزم کی جانب رواں دواں ہو جاتا اور اسے ریاست ماں جیسی محسوس ہونے لگتی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
انگریزی میں کہتے ہیں کہ’’It's Never too Late‘‘ ’’جسے فارسی میں ’’دیر آید درست آید‘‘ کہا جاتا ہے اور اردو میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مقولہ درس دیتا ہے کہ صحیح سمت میں مڑ کر اپنے آپ کو سدھار لینے کا موقع ہروقت موجود ہوتا ہے میکیا ولی نے اپنی مشہور کتاب ( Prince The) میں ایک نکتے’’ End Justifies means‘‘ کو اْجاگر کیا ہے جسے اْردو میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑی کے نام کے آگے سنچری لکھی ہو تو اس کے گرنے والے کیچوں کا حساب کوئی نہیں رکھتا۔ چنانچہ ہماے پاس بھی موقع ہے کہ ہم اپنی باگیں موڑ دیں اورایسے اقدامات کا سوچیں جو قومی بہتری کا نشان ٹھہریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں پر ہاتھ ملنے کی بجائے ایک خوشگوار احساس کے مسافر نہ ہو سکیں۔
لیکن ظاہر ہے اس کیلئے سب کو مل کوشش کرنا ہو گی۔ ہر ادارے میں اور عوامی سطح پر بھی اصلاحات کا آغاز کرنا ہوگا۔ ایسی اصلاحات جن کی منزل اجتماعی بہتری کے سوا کچھ نہ ہو۔
نسیم نکولس طالب ایک عالمی مفکر ہیں جنہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک کتاب The Bed of Procrustesبھی ہے جس میں بہت خوبصورت انداز میں چھوٹے چھوٹے مکالمے درج ہیں ’’ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جس شخص کی تردید یانفی کرتے ہوئے آپ سب سے زیادہ گھبراتے ہیں وہ کوئی اور نہیں صرف اور صرف آپ خود ہوتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ دنیا آپ کی وہ باتیں سننے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی جو آپ سنانا چاہتے یا سناتے ہیں بلکہ یہ عالم ’’آب و گْل‘‘ اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جو آپ چْھپاتے یا چْھپانا چاہتے ہیں۔
مولانا ظفر علی خان نے فرمان الٰہی کی خوب ترجمانی کی ہے کہ خدا نے بھی آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنے بدلنے کا خیال نہ ہو۔ یعنی اپنی اپنی ’’غلط کاریوں‘‘ کی تردید کی جرات اظہار پیدا کرکے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے ورنہ تو پھر وہی کہ ’’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ہوا کرتا‘‘
اگر ہم لفظوں کا سہارا لیکر اور عملی اقدامات سے کوسوں دور رہ کر روزانہ ایک دوسرے کو شہزادوں، شہزادیوں اور مافوق الفطرت مخلوق کی کہانیاں سنا کر یہ سمجھیں گے کہ وہ ’’مریض‘‘ جو ہمیں دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر ہنسی لے آتا ہے اس کا حال اچھا ہے تو یقین رکھیں اس طرح ’’سب اچھا‘‘ نہیں ہوا کرتا بلکہ آپ ایک ایسی کمزوری کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں جو انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کیونکہ لوگ تو وہ جاننا چاہتے ہیں جو آپ بتانے سے ہچکچا رہے ہوتے ہیں اور بقول منیر نیازی شہر کے لوگ ظالم بھی ہو جایا کرتے ہیں اور سب جاننے کی کوشش میں وہ حدیں بھی پار کر جاتے ہیں جو کسی صورت پار نہیں ہونی چاہئیں۔
خلق خْدا کی آواز کو نقارہ خدا سمجھنا چاہئے۔
ابراہیم ذوق نے کیا خوب کہا ہے:
عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
…………………(جاری ہے)
پاکستان کو ملکر ہارڈ ریاست بنائیں (1 )
Apr 08, 2025