اپوزیشن کے 10 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی شوکاز کے جواب میں جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سیاسی اتحاد بنتے رہے ہیں جو عموماً حکومت وقت کیخلاف ہوتے تھے۔ انتخابات سے قبل بھی سیاسی اتحاد وجود میں آ جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد تحریکِ انصاف حکومت کو گھر کی راہ دکھانے کیلئے 20 ستمبر 2020ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ گیارہ پارٹیوں پر مشتمل اتحاد کو پہلے روز ہی مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف نے پاک فوج کیخلاف سخت بیانیہ اختیار کر کے پاک فوج کو غیر جانبدار سمجھنے والے حلقوں کو اس اتحاد سے مایوس کر دیا۔ اتحادی جماعتوں کے اندر بھی اس بیانیے کی مکمل حمایت موجود نہیں تھی۔ پی ڈی ایم تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد رہی۔ اس حوالے سے 26 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ لانگ مارچ کی تیاریوں کو آخری شکل دینے کیلئے 16 دسمبر کو اتحاد کا سربراہی اجلاس ہوا جس میں لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی بات کی گئی جس سے پیپلز پارٹی نے اتفاق نہ کیاتو پی ڈی ایم اختلافات کا شکار ہوئی جس کی انتہا یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے سے ہو گئی۔ ایسے اتحاد مفاہمت کے تحت چلتے ہیں۔ ہر پارٹی اپنی جگہ اہم ہوتی ہے۔ اتحاد میں شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بارے میں پہلی بار سنا گیا۔ جس پر اے این پی نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی۔ پیپلز پارٹی بھی شوکاز نوٹس پر سخت موقف اختیار کر رہی ہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کے فقدان کے باعث پی ڈی ایم اتحاد صرف 6 ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اب پارٹیوں نے ایک دوسرے پر بندوقیں تان لی ہیں۔ حکومت بھی مخالفانہ بیان بازی میں پیچھے نہیں رہی۔ سیاست میں تحمل اور برداشت کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک چلے جاتے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی سے غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ آج سیاست میں مفاہمت اور برداشت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024