اللہ نے تو رمضان کا مہینہ رحمت کی علامت اور ضمانت قرار دیا ہے لیکن ہماری وزارت خزانہ اور سرمایہ کاروں نے اسے زحمت بناکر رکھ دیا ہے۔ ابھی رمضان کی آمد آمد ہے اور اشیاء خوردنی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں،نہ بیچنے والوں کے دل میں رحم ہے اور نہ خریدنے والے اپنی چادر کا لحاظ کرتے ہیں،رمضان نہ بھی ہو تو بھی پاکستان میں ہر دن اور ہر مہینہ ہریوٹیلٹی بل مہنگائی کے کوڑے برساتا ہے ،سرکاری ملازمین جو رشوت خور نہیں اور ان میں سے ہر کوئی رشوت خور نہیں ہوتا ان کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔پینشنرز کا ان سے بھی برا حال ہے ، ایک تو وہ بڑھاپے کی وجہ سے کوئی دوسرا کام کاج کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے ،دوسرے حکومت اگر سرکاری ملازمین کی تنخوا میں اضافہ بھی کردے مگر پینشنز میں اضافہ نہیں کیا جاتا،جبکہ ضعیف العمری میں روٹی پانی کے علاوہ بیماریاں بھی جان کا روگ بن جاتی ہیں،ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں اور مہنگی دوائیں بڑھاپے کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کردیتی ہیں۔ میں نے ایک کالم میں اپنا فون نمبر تو کیا لکھ دیا پاکستان کے طول و عرض سے کالیں آئیں حتیٰ کہ آزاد کشمیر سے بھی لوگوں نے فریادیں کیں،مظفر آباد کے راجہ ممتاز پینشنز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ہیں وہ تو روز فون کرتے ہیں کہ کوئی ہماری بھی فریاد سنے،ہم لوگوں نے اسلام آباد جا کر سخت سردی میں مظاہرے کیے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی،آزاد کشمیر والے نعرہ تو لگاتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان لیکن کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے کنٹرول میں آیا ہے وہ معاشی طور پر بد حالی کا شکار ہے خاص طور پر بوڑھے پینشنرز کا رونا دھونا تو کوئی سنتا ہی نہیں۔موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی ایک طویل چارج شیٹ ہے جسے زیادہ تر سیاسی شاخسانہ کہا جا سکتا ہے لیکن مہنگائی نے بہر حال عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔دنیا میں تیل کی قیمتیں صفر یا ایک ڈالر فی بیرل تک گر گئیں مگر پاکستان میں اسی سستے پٹرول کی آڑ میں ایک ایک آدمی کو نوچا جا رہا ہے ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس میں شامل صرف پنجاب کا ایک صوبہ پورے ہندوستان کی غذائی کفالت کے لیے کافی تھالیکن آج آڑھتیوں ،ذخیرہ اندوزوں،سٹہ بازوں اور سرکار کے رشوت خوروں نے پنجاب کے غلے کو سونے کی قیمتوں کے برابر کر دیا ہے ،آٹا ،چینی ،دال ،سبزی،صابن ،تیل بڑے بڑے مافیاز کے ہاتھوں عوام پربجلی بن کر گر رہے ہیں،اور حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ کھلے عام اعتراف کرتی ہے کہ وہ ان مافیاز اور کارٹلز کے سامنے بے بس ہے،ملک کے بیس آدمی ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں اور ریاست کے اوپر ریاست بن چکے ہیں، ریاست بیس آدمیوں کابال بیکا نہیں کر سکتی۔ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے قانون ساز اور پالیسی ساز نمائندے کروڑوں کے اخراجات سے پارلیمنٹ اور کابینہ تک پہنچتے ہیں وہ جب تک پارلیمنٹ اور حکومت میں رہتے ہیں تو ان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کس طرح اپنے ان اخراجات کے نقصان کو پورا کرنا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ سو سو راستے تلاش کرتے ہیں ،جن سے وہ اربوں اورکھربوں کی کمائی بیرونی بنکوں اور ملکوں میں منتقل کر دیتے ہیں ۔عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہی لٹیرے اور ڈاکو ثابت ہوئے تو پھر فلاح کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔اس شیطانی کھیل کو کہیں نہ کہیں ختم ہونا ہے اور جو نعرہ بانیان پاکستان نے لگایا تھا اس کی کسی نے تو تکمیل کرنی ہے ۔لٹے پٹے مہاجروں نے جو خواب دیکھے تھے ان کی کسی نے تو تعبیر پیش کرنی ہے ۔موجودہ حکومت کی کوشش تو وہی ہے کہ وہ ڈاکوئوں لٹیروں اور چوروں کا احتساب کرے مگر اسے اپنا یہ فرض بھی نبھانا ہوگا کہ عام آدمی کی معاشی تکالیف رفع کی جائیں۔بڑے سرمایہ داروں کے اربوں کے قرض معاف ہوتے ہیں،میٹرو اور اورنج ٹرینوں کے منصوبے بنتے ہیں مگر عوام کو صاف پانی کا ایک قطرہ تک مہیا نہیں کیا جاتا،عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت پاکستان کا آئین فراہم کرتا ہے اور جو کوئی بھی ان حقوق کو پامال کرے وہ بہر حال آئین شکن ہے،مارشل لاء لگانا ہی آئین شکنی نہیں بلکہ جمہوریت ہوتے ہوئے بھی آئین کو پامال کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔روٹی ،کپڑا مکان کے بھی جھوٹے نعرے لگا ئے گئے ،ستر کی قیمتیں واپس لانے کا جھوٹ بولا گیا اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری فلاحی اور پارلیمانی ریاست ہے، ریاست کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ماں ہوتی ہے لیکن پاکستانی ریاست اپنے ہی بچوں کا مہنگائی کے ذریعے خون چوس رہی ہے،وزیر اعظم عمران خان ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں ،ان کی اپنی دیانت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی مگر انہیں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ جو ان کی حکومت کو درپیش ہیں عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا بھی ضروری ہوجا تا ہے، کورونا میں مزدوروں اور دکان داروں کا دھیان تو رکھا گیا ہے لیکن سرکاری ملازمین،پینشنرز،سفید پوش طبقہ، اور عام آدمی معاشی سہولتیں مانگتا ہے۔دنیا کی معیشت کرونا نے تباہ کی ہے پاکستان بھی اس کا نشانہ بنا ہے مگر قو م کالیڈر عوام کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے اور ان کا مداوا کرنا جانتا ہے۔
پاکستانی عوام کا حق ہے کہ انہیں مہنگائی کے عفریت سے نجات دلائی جائے ۔آڑھتیوں،ذخیرہ اندوزوں اور سٹہ باز مہاجنوں سے نجات دلائی جائے،انہیں کارٹلز اور مافیاز کا لقمہ نہ بننے دیا جائے اور حالات میں اتنا سدھا ر لایا جائے کہ لوگ دو وقت کی روٹی تو کسی دقت کے بغیر کھا سکیں،اور راوی ہر سو چین لکھے۔راوی اس وقت ہر سو چین لکھے گا جب پاکستان کی وزارت خزانہ کو کوئی اکانومسٹ دستیاب ہوگا ،ہماری وزارت خزانہ کو وہ لوگ چلاتے رہے جو پہلے سود خور مہاجروں کا بہی کھاتہ لکھنے والے منشی منقے تھے ،کیلکولیٹر پکڑ کر آمدن اور اخراجات کا حساب لگانا،حساب لگا کر قوم کی ملک کی معیشت کو بہتر نہیں کیا جاسکتا،بد قسمتی سے ہم گھٹیا قسم کے اکائونٹنٹوں کے ہاتھوں یر غمال بنے رہے ،کبھی عالمی مالیاتی سامراج کے پٹھو ایک بریف کیس پکڑ کر پاکستان کی وزارت خزانہ سنبھالتے رہے اور انہیں معاشی دلدل میں دھکیل کر واپسی کا ٹکٹ کرا لیتے ہیں ان کے بیوی بچے باہر تھے ،ملک کے عوام کو انہوں نے بھیڑ بکریاں سمجھا۔وہ کیا زمانہ تھا جب ہماری معاشی ترقی کا ماڈل جنوبی کوریا ،ملائیشیا اور انڈونیشیا نے اپنایا اور وہ ایشین ٹائیگر بن گئے ،ان ممالک کی لیڈر شپ کا ایک ویژن تھا جبکہ ہماری وزارت خزانہ کی لیڈر شپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ثابت ہوئی ،ہمیں میڈ ان پاکستان اکانومسٹ چاہئے جودور اندیشی کی نعمت سے مالامال ہو۔جس کے بنائے ہوئے منصوبے آنے والی نسلوںکی تقدیر بدل ڈالیں ۔ جو مافیاز اور کارٹرز کی جڑیں کاٹ کر رکھ دے جو اربوں کھربوںکے قرضوںکی معافی کا شیوہ اختیار نہ کرے ، قصہ مختصر میڈ ان پاکستان اور میڈ فار پاکستان کے معاشی معانی کے ہاتھ میں وزارت خزانہ آئے گی تو مہنگائی کا خاتمہ ہوگا ،ذخیرہ اندوزوں کو ملیا میٹ کیاجاسکے گا اور ایک روشن دن طلوع ہوگا جب پاکستان کے بائیس کروڑ عوام در حقیقت ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کے شہری کہلانے پر فخر محسوس کریں گے۔حکومتی ٹیم میں حماد اظہر اور شوکت ترین کی موجودگی سے ایک توقع پیدا ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے وہ مہنگائی پر قابو پانے کی سر توڑ کوشش ضرور کریں گے۔وزیر اعظم نے بھی اپنی ٹیلی فونک کانفرنس میں ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہر مافیا کو ناکام بنائیں گے اور یوں عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024