ماہ اپریل تو کیا اگر تمام سال بھی اس شخصیت کا ذکر کریں ، تو اسکاذکر صرف ذکر نہیں بلکہ ایک تربیت بھی ہوگا ، کئی امور پر ، پاکستان کی سرحدوںکے محافظ افکار لئے، اصول پسندی ، کشمیر ، یا صحافت ، کونسا ایسا مثبت پہلو ہے جو میرے محسن ڈاکٹر مجید نظامی میںنہ تھا ۔
3اپریل کو اس محسن پاکستان کی 93 سالگرہ تھی ، ڈاکٹر مجید نظامی جن افکار اور صفات کے حامل شخصیت تھے ایسے لوگ کی صرف روح پروز کرتی ہے افکار رہتی دنیا تک انسانیت کیلئے مشعل راہ ہوتے ہیں، میرے محسن مجید نظامی سے میری قربت جتنی رہی ہے وہ میری زندگی کا اثاثہ ہیں،نوائے وقت کراچی میں کچھ دن کام کرنے کے بعد میںسعودی عرب آگیا اور تقریبا بیس سال 20 ) ( قبل کا وہ سنہرہ دن مجھے یاد ہے جب عمرہ کی ادائیگی کیلئے اپنی بیگم ، ننھی صاحبزادی رمیزہ ، نظامی صاحب کے معالج ودوست ڈاکٹر شہر یار و ان کی بیگم کے ہمراہ جدہ پہنچے ۔ اتنی عظیم شخصیت جب آپ کے ہمراہ ایک گھر میں قیام پذیر رہے وہ دن ، وہ باتیں، ایسے شخص کے مشاہدات جو کسی پی ایچ ڈی سے کم نہیں ۔پھر یہ سلسلہ جدہ عمرہ کیلئے آمد ، میرے گھر قیام کرنے کا مجھے شرف بخشنا یہ میری زندگی کا اثاثہ ہے سال میں ایک دفعہ جب تک انکی صحت نے اجازت دی انہوں نے مجھے یہ شرف بخشا کہ ان کی فیملی اور میری فیملی ساتھ رہے ۔ انکی اس قربت نے مجھ جیسے جاہل فرد کو بھی سکھا دیا کہ حب وطنی کیا ہوتی ہے ۔ یہاں میں چند واقعات رقم کرتا ہوں ان میں شاید ہی کچھ باتیں قارئین کے علم میں ہوں مگر اکثر نہیں اور یہ سب میرے مشاہدات ہیں جو انکی قربت میں میری یاداشت کا حصہ بنے۔
نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان سے محبت
جدہ میں نوائے وقت مطبوعات کے تقسیم اور فروخت کے ایجنٹ سے سعودی عرب میں اخبارات کی مارکیٹ کی صورتحال اور ان میں اضافہ کی بات چیت ہورہی تھی ،خاص طور پر ڈاکٹر نظامی نے ذکر کیا کہ فیملی میگزین کی فروخت میں اضافہ کیا جائے ، 25 دسمبر یوم قائد کا موقع تھا ، ایجنٹ نے فیملی میگزین جس پر بانی پاکستان کی تصویر تھی ، اور کراچی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ دونوں نظامی صاحب کے سامنے رکھے جس پر ہندوستانی اداکارہ ریکھا کی چمکتی دمکتی تصویر تھی، ایجنٹ نے کہا کہ سر دونوں میں فرق دیکھیں مارکیٹ میںکراچی کے اس ہفت روزہ کی مانگ ہے ، اس بات پر میں نے نظامی صاحب کو غصہ میں دیکھا ، انہوں نے فرمایا کہ ہمارا ایک اخبار اور رسالہ نہ فروخت ہو ہمارے ہاںقائد اعظم کی تصویر ہی شائع ہوگی ،کراچی کے ہفت روزہ جیسی تصاویر شائع ہونے کا نوائے وقت میں اشاعت کا کبھی نہ سوچیں ، اور بات چیت ختم ہوگئی۔
وقت ٹی وی کا اجراء ہوا ، جدہ میں میں سابقہ وزیر اعظم سے اس کا ذکر کیا انہوںنے فرمایا کہ وقت ٹی وی پر مجید نظامی صاحب نے تحریک پاکستان ، قائد اعظم کی ہی دکھانا ہوگا ۔ میں نے یہ خبر نظامی صاحب کو پہنچا دی ۔ جس پر نظامی صاحب نے فون پر سابق وزیر اعظم سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ نظریہ پاکستان کی حمایت کے حوالے سے انہوںنے جدہ میں ایک تقریب میں یادگار جملے ادا کئے کہ ’’ہمیںغیر جانبدار نہ کہا جائے ، ملک دشمنی ، نظریا تی سرحدوںکی حفاظت کے حوالے سے ہم جانبدار ہیں ، سچ اور جھوٹ میں ہم کیسے غیر جانبدار ہوسکتے ہیں۔
مضبوط صحافتی اصولوںکے بانی
جدہ میں میاں نواز شریف کو عارضہ قلب کی شکایت ہوئی ، ہسپتال میں داخل ہوئے ، چھوٹا موٹا آپریشن بھی ہوا ، معاملہ بہت صیغہ راز میں رکھا گیا تھا ، جدہ میں پاکستان قونصلیٹ میں تعینات فرشتوں نے مجھے خبر دی۔ میں نے اس کی تصدیق کی کوشش کی ، مگر میاںنواز شریف سے کوئی جوا ب موصول نہ ہوا، متعلقہ ہسپتال میں ایک رابطے سے اس کی تصدیق مجھے ہوئی۔
میںنے خبر نوائے وقت کو بھیج دی، لاہور میں میاں صاحب کے بھی فرشتے تھے،جنہوں نے خبر کی اشاعت سے قبل میاں صاحب کو خبر دے دی کہ یہ خبرآئی ہے ۔ میاں صاحب نے براہ راست مجیدنظامی صاحب کو فون کرکے خبر کو رکوانے کی کوشش کی کہ خبر غلط ہے۔
نظامی صاحب کا مجھے اعلی صبح فون کیا کہ میاںصاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کی خبر درست نہیں ، میںنے انہیں کہہ دیا ہے کہ خبر امیر محمد خان نے بھیجی ہے ، وہی واپس لینگے میاں صاحب آپ ان سے بات کریں (آج کی صحافت میں اگر کوئی بڑی شخصیت اخبار کے مالک کو فون کردے تو خبر غلط نہ ہونے کے باوجود اس نمائیندے کو نہ صرف برطرف بلکہ کالا پانی بھیج دیتے ہیں ) قصہ مختصر میاں صاحب نے مجھے فون کیا تقریباً آدھ گھنٹے اس خبر کے حوالے سے بات ہوئی انہوںنے مجھ سے کہا آپ یہ خبر واپس لے لیں۔ نظامی صاحب کو میں نے فون کیا اور تفصیل بتانے کی کوشش کی انہوںنے صرف ایک سوال پوچھا کہ مجھے بات چیت کی تفصیل نہ بتائیں صرف یہ بتائیں کہ خبر درست ہے یا غلط ، میںنے کہا کہ خبر درست ہے جسے میاں صاحب بھی تسلیم کرچکے ہیں۔
مجید نظامی صاحب نے مجھ سے کہا کہ خبر خبر ہوتی ہے ، آپکی مجھ سے بات نہیں ہوئی ، آپ نے مجھ سے رابطہ کیا آپکا رابطہ نہ ہوسکا ۔اور وہ خبر نوائے وقت میں شہ سرخی تھی۔یہ ہے صحافت ۔
کاروبار میں عزت و احترام و ، اصول :
سعودی عرب کے ایک سرمایہ کار نے نوائے وقت کا سعودی عرب سے شائع کرنے کا ایک معاہدہ نوائے وقت سے کیا پروگرام تھا کہ بحرین میں شائع کرکے سعودی عرب اخبار لایا جائے گا، سرمایہ کار نے بحرین میں بھاری مالیت کی طباعت کی مشین نصب کیں۔ نوائے وقت کو بھاری معاوضہ ایڈوانس دیا ۔نوائے وقت میں اشاعت سے قبل ’’ڈمی ‘‘بننا شروع ہوگئیں، کچھ اسٹاف بھی رکھ لیاگیا ۔
مجید نظامی صاحب جدہ تشریف لائے ، جدہ میں ایک دفتر بنایا گیا ، جس کا افتتاح محترم نظامی صاحب نے کیا سعودی شراکت دار کے ہمراہ چند پاکستانی سیاسی کارکن بھی تھے جن کی نظر میری نمائندگی پر تھی اور انہوںنے فیصلہ کیا تھا کہ اب امیر محمد خان کا کچھ نوائے وقت میں نہیںہوگا ۔
افتتاح میں مجھے دعوت نہیںدی گئی ، افتتاح سے واپسی پر محترم نظامی صاحب نے مجھ سے سوال کیا ’’آپ کیوں نہیں آئے ، میںنے بتایا کہ مجھے دعوت نہیں تھی۔ سعودی سرمایہ کار ٹھیک ہوگا مگر جو لوگ انکے ساتھ کام کررہے ہیں وہ کچھ ٹھیک نہیںہیں۔ نظامی صاحب نے تعجب کا اظہار کیا، نظامی صاحب پاکستان گئے ایک ہفتے بعد مجھے ایک سعودی بھائی کا فون آیا اور ناراضگی کا اظہار کیا کہ تمہاری وجہ سے میرا نوائے وقت کی اشاعت کا پراجیکٹ ختم ہورہا ہے ۔(جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024